ایک تحقیق کے مطابق شامی کیمپوں میں بے گھر ہونے والے خاندان ٹک ٹاک پر عطیات کے لیے بھیک مانگ رہے ہیں جبکہ کمپنی اس رقم کا 70 فیصد حصہ لیتی ہے۔
بچے گھنٹوں سوشل میڈیا ایپ پر لائیو اسٹریمنگ کر رہے ہیں اور نقد قیمت کے ساتھ ڈیجیٹل تحائف کی درخواست کر رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک گھنٹے میں ایک ہزار ڈالر (900 پاؤنڈ) تک کی آمدنی ہوتی ہے، لیکن پتہ چلا کہ کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کو اس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ملتا ہے۔
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ وہ ‘استحصالی بھیک مانگنے’ کے خلاف فوری کارروائی کرے گی۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پلیٹ فارم پر اس قسم کے مواد کی اجازت نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل تحائف سے اس کا کمیشن 70 فیصد سے بھی کم ہے، لیکن اس نے صحیح رقم کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا۔
اس سال کے اوائل میں ٹک ٹاک صارفین نے اپنی فیڈز کو شامی کیمپوں میں رہنے والے خاندانوں کی لائیو اسٹریمز سے بھرے دیکھا تھا، جسے کچھ ناظرین کی حمایت حاصل ہوئی تھی اور دوسروں کی جانب سے دھوکہ دہی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔