اسلام آباد (ویب ڈیسک): اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اپنے اعزاز میں الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں، سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ میں اردو میں بات کرنا چاہتا ہوں۔آئین اور قانون کی بات نہیں کروں گا، کچھ ایسی باتیں کروں گا جو شاید آپ کو معلوم نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے شکریہ اللہ تعالیٰ کا، جس نے مجھے منصب عطا کیا۔ ان کا بھی شکر گزار ہوں جو آج یہاں تقریب میں موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شکر ہے میری اہلیہ آج موجود ہیں اور انہوں نے خود میری تعریفیں سن لی ہیں۔ شکریہ چوہدری افتخار کا جنہوں نے مجھے بلوچستان ہائی کورٹ کے لیے چُنا۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں کوئی سکھانے والا نہیں تھا، میں نے وکلا ہی سے سیکھا۔ 16 سال کی عمر میں تھا جب میرے والد کا انتقال ہوا۔ میری دادی پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دی۔ میری والدہ نے کہا پہلے ڈگری کر لو پھر جو مرضی کرنا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ڈگری مکمل کرکے شادی کی اور وکالت کا آغاز کیا۔ ایک دن چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بلا کر کہا آپ بلوچستان سنبھالیں۔ چیف جسٹس کو کہا اپنی اہلیہ کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بلوچستان کے ان اضلاع میں بھی اہلیہ کے ساتھ گیا جہاں جانے سے منع کیا جاتا تھا۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ میری نواسی نے کہا کہ دوست ناراض ہیں کہ مارگلہ ہلز پر ریسٹورنٹ کیوں گرائے۔ نواسی صفیہ نے انہیں کہا کہ یہ پرندوں اور جانوروں کا گھر تھا ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ماحول اچھا نہ رہا تو جانوروں کیا انسانوں کا بھی دنیا میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں میرا پہلا کام رجسٹرار کا انتخاب تھا جو درست ثابت ہوا۔ اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا مشکور ہوں۔ کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنی تعریف پر مبنی انگلینڈ سے ایک خاتون کا لکھا ہوا خط بھی پڑھ کر سنایا۔
بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں یادگار کے افتتاح کی تقریب میں پہنچ گئے۔ اس موقع پر نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت دیگر ججز نے بھی شرکت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تقریب میں کہا کہ سپریم کورٹ میں یہ جگہ خالی تھی۔ لوگ دُور دراز کے شہروں سے یہاں آکر سڑک پر تصاویر بنواتے ہیں۔یہ یادگار عوام کے لیے ہے۔ جو آرکیٹیکٹ میرا مکان بنا رہا ہے، اس نے رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے رضامندی ظاہر کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس میں جسٹس منیب اختر ،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شہزاد احمد ملک شریک نہیں ہوئے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہیں۔
سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کو براہ راست نشر کیا گیا۔ الوداعی ریفرنس میں جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی شریک ہیں۔
علاوہ ازیں الوداعی ریفرنس میں ایڈہاک ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں بھی شریک ہیں۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کے دو عالم ججز بھی فل کورٹ ریفرنس میں موجود ہیں۔ الوداعی ریفرنس میں 12 مستقل جج صاحبان، 2 ایڈہاک ججز اور 2 عالم ججز شریک ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس میں مجموعی طور پر 5 ججز شریک نہیں ہوئے۔
الوداعی ریفرنس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا، جس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون ،جمہوریت اور احتساب کے عمل میں غیر متزلزل رہے۔ چیف جسٹس بننے سے قبل بھی قاضی صاحب کا بطور وکیل نمایاں اور کامیاب کیرئیر رہا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہمیشہ بنیادی حقوق آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق کے علمبردار رہے۔ انہوں نے متعدد تاریخی فیصلے دیے۔ فیض آباد دھرنا کیس میں قانون کے مطابق اور پرامن احتجاج کا تاریخی فیصلہ دیا ۔ چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی واضح کیا ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ ریفرنس بلایا گیا۔ چیف جسٹس نے مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کمیٹی کے سپرد کرنے جیسے اہم اقدامات اور فیصلے دیے۔ چیف جسٹس کا عام انتخابات کے انعقاد میں اہم کردار ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو جمہوریت کی بقا کے لیے انتخابات پر راضی کیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد پاکستان کے بانیان میں سے تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس سے سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں۔ ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر دل اُداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اچھی صحت کے ساتھ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اچھا انسان پایا۔ وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں۔ اگر آپ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو اکسائیں گے تو پھر ان کے غصے سے بچنا مشکل ہے۔ میں نے بھی ایک مرتبہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے غصے کا سامنا کیا ہے۔ میرا یہ تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے جب کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے خطاب پر مسکراتے رہے۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے۔ ججز میں اختلاف رائے کو چیف جسٹس پاکستان قاضی نے تحمل کیساتھ سنا۔ چیف جسٹس پاکستان نے حکومتی خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا۔ ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا۔میں نے اپنے کچھ ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں۔ ایسے دُور دراز کے اضلاع بھی ہیں جو توجہ کے حقدار ہیں۔ اختیارات کی تقسیم کے اصولوں پر عمل ہوگا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و جمہوریت کے لیے غیر متزلزل رہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس سپریم کورٹ میں جاری ہے، جس میں جسٹس منیب اختر ،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شہزاد احمد ملک شریک نہیں ہوئے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہیں۔سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کو براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔ الوداعی ریفرنس میں جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی شریک ہیں۔
علاوہ ازیں الوداعی ریفرنس میں ایڈہاک ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں بھی شریک ہیں۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کے دو عالم ججز بھی فل کورٹ ریفرنس میں موجود ہیں۔ الوداعی ریفرنس میں 12 مستقل جج صاحبان، 2 ایڈہاک ججز اور 2 عالم ججز شریک ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس میں مجموعی طور پر 5 ججز شریک نہیں ہوئے۔
الوداعی ریفرنس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا، جس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون ،جمہوریت اور احتساب کے عمل میں غیر متزلزل رہے۔ چیف جسٹس بننے سے قبل بھی قاضی صاحب کا بطور وکیل نمایاں اور کامیاب کیرئیر رہا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہمیشہ بنیادی حقوق آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق کے علمبردار رہے۔ انہوں نے متعدد تاریخی فیصلے دیے۔ فیض آباد دھرنا کیس میں قانون کے مطابق اور پرامن احتجاج کا تاریخی فیصلہ دیا ۔ چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی واضح کیا ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ ریفرنس بلایا گیا۔ چیف جسٹس نے مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کمیٹی کے سپرد کرنے جیسے اہم اقدامات اور فیصلے دیے۔ چیف جسٹس کا عام انتخابات کے انعقاد میں اہم کردار ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو جمہوریت کی بقا کے لیے انتخابات پر راضی کیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد پاکستان کے بانیان میں سے تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس سے سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں۔ ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر دل اُداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اچھی صحت کے ساتھ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اچھا انسان پایا۔ وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں۔ اگر آپ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو اکسائیں گے تو پھر ان کے غصے سے بچنا مشکل ہے۔ میں نے بھی ایک مرتبہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے غصے کا سامنا کیا ہے۔ میرا یہ تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے جب کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے خطاب پر مسکراتے رہے۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے۔ ججز میں اختلاف رائے کو چیف جسٹس پاکستان قاضی نے تحمل کیساتھ سنا۔ چیف جسٹس پاکستان نے حکومتی خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا۔ ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا۔میں نے اپنے کچھ ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں۔ ایسے دُور دراز کے اضلاع بھی ہیں جو توجہ کے حقدار ہیں۔ اختیارات کی تقسیم کے اصولوں پر عمل ہوگا۔