استنبول (ویبڈیسک): استنبول کے نو منتخب میئر اور حزب اختلاف کے اکرم امام اوغلو نے دعویٰ کیا ہے کہ تقریبا تمام بیلٹ بکس کھل چکے ہیں اور انہوں نے اپنے حامیوں کے ایک پرجوش ہجوم سے کہا کہ ’کل ہمارے ملک کے لیے موسم بہار کا ایک نیا دن ہے۔‘ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اتوار کو ملک کے بلدیاتی انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ووٹ ان کی پارٹی کے لیے دو دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد ایک ’ٹرننگ پوائنٹ‘ یعنی اہم موڑ ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملک کی آٹھ کروڑ 50 لاکھ آبادی کے ابتدائی نتائج کے مطابق ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے نمایاں کامیابی حاصل کی جبکہ رجب طیب ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (آق) کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے دارالحکومت انقرہ اور استنبول سمیت کئی شہروں میں میدان مار لیا۔استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو نے صدر ایردوان کی اے کے پارٹی کے امیدوار کے خلاف باآسانی فتح حاصل کی جب کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی نے کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی میئر کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
مجموعی طور پر ری پبلکن پارٹی نے ترکیہ کے 81 صوبوں میں سے 36 کی میونسپلٹی جیت لی جب کہ ایردوان کی جماعت اے کے پارٹی کے کئی مضبوط اضلاع میں بھی حزبِ اختلاف کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
صدر ایردوان نے تقریباً دو دہائیوں تک ترکیہ پر حکومت کی ہے اور الیکشن سے قبل ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں میں اے کے پی اور ری پبلکن پیپلز پارٹی میں استنبول میں سخت مقابلے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
یہی نہیں ری پبلکن پیپلز پارٹی کی ملک بھر میں ممکنہ شکست دیکھی جا رہی تھی۔ لیکن انتخابی نتائج ان تمام جائزوں کے برعکس آئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایردوان اور ان کی اے کے پی کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، غیر مطمئن اسلام پسند ووٹروں اور استنبول میں امام اوغلو کے بیانیے کی وجہ سے شکست ہوئی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے امام اوغلو کو صدر ایردوان کے ممکنہ صدارتی حریف کے طور پر مزید مضبوط کر دیا ہے۔
سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق ری پبلکن پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں 37 فی صد ووٹ حاصل کیے جو اس کی صدر ایردوان کی پارٹی کے خلاف سب سے بڑی انتخابی فتح ہے۔
خبر کے مطابق 80 فی صد سے زیادہ ووٹوں کی گنتی کے ساتھ استنبول کے موجودہ میئر اکرم امام اوغلو ترکیہ کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز میں بڑے فرق سے آگے ہیں۔
نتائج کے مطابق دارالحکومت انقرہ کے میئر منصور یاواس نے اپنے حریف سے 25 پوائنٹس کی واضح برتری کے ساتھ اپنی نشست برقرار رکھی ہے۔
اس الیکشن کو ایردوان کی مقبولیت کے پیمانے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان کی پارٹی ان انتخابات میں پانچ سال قبل کے انتخابات میں کھوئے گئے اہم شہری علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
سال 2019 کے الیکشن میں دارالحکومت انقرہ اور استنبول میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کی فتح نے ایردوان کی ناقابل تسخیر حیثیت کو پہلی بار توڑ دیا تھا۔
ستر سالہ ایردوان کے لیے ان کے آبائی شہر استنبول سے جیتنا ایک بڑا چیلنج تھا لیکن ان کی جماعت استنبول میں بھی ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گئی ہے۔
رجب طیب ایردوآن نے اپنی پارٹی کے صدر دفتر میں اپنے حامیوں سے خطاب میں انتخابی ناکامی کا اعتراف کیا۔انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ہمیں وہ نتائج نہیں ملے جو ہم چاہتے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم یقینا قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ ہم ضد کرنے، قومی مرضی کے خلاف کام کرنے اور قوم کی طاقت پر سوال اٹھانے سے گریز کریں گے۔‘
ایردوآن 2014 سے ترکیہ کے صدر ہیں اور انہوں نے گذشتہ سال مئی میں نئی مدت کے لیے کامیابی حاصل کی تھی۔
انہوں نے استنبول سے دوبارہ جیتنے کے لیے مہم کا آغاز کرتے وقت استنبول کو قومی ’خزانہ‘ قرار دیا تھا۔لیکن جب وہ انتخابی مہم پر حاوی رہے، تو ان کے ذاتی کردار نے ملک کی معیشت کے بارے میں وسیع پیمانے پر خدشات پر قابو پانے میں مدد نہیں کی۔