جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا واپس آنے پر لمبے دم والے بندروں کو ہلاک یا منی لانڈرنگ یا دوبارہ اسمگل کیے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے امریکی حکومت کی تحقیقات کے مرکز میں موجود ایک ہزار سے زائد کمبوڈیائی بندروں کو ہلاک یا اپنے آبائی ملک واپس بھیجنے، منی لانڈرنگ کرنے اور دوبارہ اسمگل کیے جانے کا خطرہ ہے۔
بندروں کی حالت زار پہلی بار گزشتہ سال اس وقت سامنے آئی تھی، جب امریکی فش اینڈ وائلڈ لائف سروس (ایف ڈبلیو ایس) نے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پیٹا سے 360 بندروں کے لیے پناہ گاہ تلاش کرنے کے بارے میں پوچھا تھا۔
بورن فری یو ایس اے اور امریکی محکمہ انصاف (ڈی او جے) بعد میں اس بحث میں شامل ہو گئے اور بات چیت آگے بڑھنے کے ساتھ بندروں کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔
تاہم، گزشتہ ہفتے، جب پیٹا کو 13 مارچ کو پتہ چلا کہ بندروں کو امریکہ سے باہر لے جایا جائے گا تو یہ بحث رک گئی۔
پیٹا سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر لیزا جونز اینجل کا کہنا ہے کہ امریکی قانون کے تحت بندر صرف اپنے آبائی ملک کمبوڈیا واپس جا سکتے ہیں، لیکن نہ تو ڈی او جے اور نہ ہی ایف ڈبلیو ایس نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 1000 یا اس سے زیادہ کم عمر لمبے دم والے بندر اس وقت ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے ایک پرائمیٹ سینٹر میں موجود ہیں، جو ایک امریکی کمپنی چارلس ریور لیبارٹریز کی ملکیت ہے جو جانوروں کی خرید و فروخت اور ٹیسٹ کرتی ہے۔
چارلس ریور کو حال ہی میں امریکی حکومت کی جانب سے بندروں کی اسمگلنگ کی تحقیقات کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
کمبوڈیا کے متعدد عہدیداروں پر گزشتہ سال نومبر میں امریکی تحقیقی لیبارٹریوں کو جنگلی بندروں کو فروخت کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، دو نامعلوم امریکی شریک سازشیوں پر بھی فرد جرم عائد کی گئی۔