اسلام آباد / لاہور (ویب ڈیسک): چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہوگئے۔ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی اسی طرح کے خطوط ملے ہیں۔ڈی آئی جی نے کہا کہ خطوط پر اسٹیمپ مدھم ہے مگر راولپنڈی کی اسٹیمپ پڑھی جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق دھمکی آمیز خطوط چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے نام لکھے گئے ہیں۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے 3 ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔ یہ خطوط سینئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام بھجوائے گئے ہیں۔
اطلاع ملتے ہی سی ٹی ڈی ٹیم اور ڈی آئی جی آپریشن ناصر رضوی سمیت پولیس افسران لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے اور عدالت کی سکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔ذرائع کے مطابق خط ایک نجی کوریئر کمپنی کا ملازم ہائیکورٹ لے کر آیا تھا جو اس نے ججز کے اسٹاف ریسیو کروایا۔ذرائع کے مطابق کوریئر کمپنی کے ملازم کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے تفتیش کی جارہی ہے۔
تفصیل کے مطابق ججز کو انتھراکس پاؤڈر بھرے دھمکی آمیز خطوط ملنے پر آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوگئے، ڈی آئی جی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی ایسے خطوط ملے ہیں۔نجی ٹی وی چینل کے مطابق سائفر کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے دھمکی آمیز خطوط ملنے کا واقعہ اٹھادیا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو روسٹرم پر بلالیا اور ساتھ ہی گزشتہ روز کے واقعے پر آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز فوری طور پر ہائی کورٹ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت دی کہ سینئر وکلاء یہاں موجود ہیں آئی جی اور ایس ایس پی آپریشن کو یہاں بلالیں کل جو معاملہ ہوا اس معاملے سے متعلق بات کریں گے۔
بعدازاں ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اور ایس ایس پی سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ عدالت میں پیش ہوگئے۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ ابھی تک کسی کے پاس آئی جی کا ایکٹنگ چارج ںہیں، اسلام آباد پولیس کے تمام آپریشنز میں دیکھ رہا ہوں، فرانزک معائنے کے لیے بھجوا دیے ہیں، تین سے چار دن میں رپورٹ آ جائے گی۔
عدالت نے پوچھا کہ کہاں سے خطوط پوسٹ کیے گئے؟ اس پر ڈی آئی جی نے کہا کہ اسٹیمپ نہیں پڑھیں جارہی، آج سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھی اسی نام سے خطوط ملے ہیں۔ اس دوران بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ انہیں ہر بصورت خط بھیجنے والی ریشماں کو ڈھونڈنا چاہیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ڈی آئی جی سے کہا کہ آپ ابھی اسٹیمپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟ کیا تمام خطوط ایک ہی ڈاک خانے سے آئے؟ڈی آئی جی نے کہا کہ خطوط پر اسٹیمپ مدھم ہے مگر راولپنڈی کی اسٹیمپ پڑھی جاری ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ آپ دونوں افسران نے خطوط کے لفافے دیکھے ہیں؟ اس پر ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے کہا کہ بظاہر راولپنڈی جی پی او لگ رہا ہے، جی پی او میں پوسٹ نہیں ہوا کسی لیٹر باکس میں ڈالا گیا ہے ہم اس لیٹر باکس کی سی سی ٹی وی اور ایریا کی معلومات حاصل کر رہے ہیں اور تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
اس دوران ڈی آئی نے انکشاف کیا کہ سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی اسی طرح کے خطوط ملے ہیں۔