(ویبڈیسک ):امریکی صدارتی انتخابات سے قبل امریکی صدر جوبائیڈن اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے پہلے صدارتی مباحثے میں جوبائیڈن مشکلات کا شکار نظر آئے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے باآسانی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔دونوں نے اسقاط حمل، مہنگائی، ماحولیاتی تبدیلی، امور خارجہ اور تارکین وطن کی آمد جیسے معاملات پر ایک دوسرے سے اختلاف کیا لیکن سب سے زیادہ فرق ان دونوں کے اعتماد اور طرز عمل میں نظر آیا۔
جہاں ڈونلڈ ٹرمپ بہت بااعتماد انداز میں حقائق کے برخلاف باتیں بھی کرگئے وہیں دوسری جانب جوبائیڈن کئی مواقع پر آنکھیں بند کرکے کچھ سوچتے نظر آئے۔
جوبائیڈن کا طرز عمل دیکھتے ہوئے ڈیموکریٹک کیمپ میں بے چینی بڑھتی گئی اور مباحثے کے درمیان میں صدر بائیڈن کے قریبی لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ صدر کو زکام ہے۔
صدر جو بائیڈن کے حامیوں کو امید تھی کہ بائیڈن اپنی عمر کے بارے میں ووٹرز کے خدشات کو دور کرتے ہوئے مضبوط اور جاندار انداز اختیار کریں لیکن ان کی یہ امیدیں جلد ہی دم توڑ گئیں۔
مباحثے کے دوران صدر بائیڈن کو اعداد و شمار یاد کرنے اور بیان کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا اور ایک وقت میں تو انہوں کھرب پتی افراد کی جگہ ارب پتی افراد کا ذکر کردیا۔ کچھ مقامات پر تو ان کی گفتگو بہت ہی زیادہ بے ربط رہی۔
اس کا فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اٹھایا اور ایک مرتبہ جب بائیڈن نے اپنی بات مکمل کی اور ان کا مئیک بند ہوا تو ٹرمپ نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم انہوں نے جملے کے آخر میں کیا کہا اور میرا خیال ہے کہ خود انہیں بھی نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا کہا‘۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق مباحثے کے آغاز کے نصف گھنٹے بعد ہی اثر و رسوخ رکھنے والی ڈیموکریٹس نجی طور پر ایک دوسرے سے اپنی پریشانی کا اظہار کرنے لگے تھے۔
یوں مباحثے کے اختتام تک 81 سالہ امریکی صدر کی عمر کے بارے میں خدشات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ چکے تھے۔
بائیڈن کی انتخابی مہم کی جانب مطالبہ کیا گیا تھا کہ جس امیدوار کی بولنے کی باری نہ ہو اس کا مائیک بند رکھا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ 2020 کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والے مباحثے میں ٹرمپ بہت زیادہ مخل ہورہے تھے۔
کل ہونے والے مباحثے میں اس احتیاط نے کام تو کیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ عجیب و غریب دعوے کرنے لگے، انہوں نے بائیڈن کو ’منچورئیں امیدوار‘ قرار دیا جس ’چین کو طرف سے پیسا دیا جارہا‘ ہے۔
خود اپنے ریکارڈ کے حوالے سے بھی ٹرمپ حقائق سے عاری دعوے کرتے رہے، یہاں تک کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ان کا دور سب سے زیادہ اچھا تھا۔
گزشتہ روز ہونے والی بحث پالیسی امور سے زیادہ ایک دوسرے پر ذاتی حملوں پر مشتمل رہی۔
جہاں صدر بائیڈن نے ٹرمپ کو کمزور کردار کا مالک قرار دیا تو وہیں ٹرمپ نے کہا کہ بائیڈن 50 گز کی دوری تک گالف بال بھی نہیں پھینک سکتے۔
صدر بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فحش فلموں کی ادارکارہ کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کا ذکر کیا تو ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں بائیڈن کے بیٹے کے مجرم قرار دیے جانے کا ذکر کردیا۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر جوبائیڈن انتخاب ہار گئے تو انہیں بھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
گزشتہ روز کے صدارتی مباحثے کے دوران اس بات کا بھی اشارہ ملا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس مرتبہ بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں۔
بحث کے دوران ٹرمپ کے سامنے 3 مرتبہ یہ سوال آیا کہ وہ ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گے یا نہیں، ٹرمپ نے 2 مرتبہ تو اس سوال کو ٹال دیا تاہم تیسر ی مرتبہ انہوں اگر مگر کے ساتھ کہا کہ وہ نتائج کو تسلیم کریں گے۔
ٹرمپ نے کہا اگر انتخابات شفاف، قانونی اور درست ہوئے تو وہ انہیں قبول کریں گے۔
صدر بائیڈن کی مشکلات صرف بولنے کے دوران ہی واضح نہیں ہوئیں بلکہ وہ بعض اوقات طویل وقفوں تک خاموش کھڑے رہے، ان کی آنکھیں کھوئی کھوئی نظر آئیں اور منہ کھلا رہا۔
پورے مباحثے کے دوران سی این این کی اسکرین کے آدھے حصے میں ایک اور آدھے میں دوسرے امیدوار کو دکھایا جاتا رہا جو صدر بائیڈن کے لیے پریشانی کا سبب رہا تاہم دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ ہشاش بشاش نظر آئے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو صدر بائیڈن نے قبل از وقت صدارتی مباحثے کی حامی بھر کر ایک جوا کھیلا تھا، انہیں امید تھی کہ اس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا تاہم ایسا نہیں ہوا۔
اب ڈیموکریٹس صدراتی امیدوار کے لیے اپنے انتخاب پر سوچ بچار کررہے ہیں، امریکی انتخابات میں ابھی وقت ہے اور یہ سوچ بچار بائیڈن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔