سپریم کورٹ نے نیب کے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جس میں سپریم کورٹ نے گرفتاری کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ صرف اس طرح کا لائحہ عمل ہی پولیس افسران اور تفتیشی اداروں کو خبردار کرے گا کہ وہ مستقبل میں ایسے طرز عمل سے گریز کریں جو عدالتوں کے وقار، تقدس اور حفاظت اور پاکستان کے شہریوں کے قانون کے مطابق آزادی حاصل کرنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی درخواست گزار کو اگلی صبح ہائی کورٹ تک محفوظ نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لئے ، اس عدالت نے آئی سی ٹی پولیس کو ہدایت دی کہ وہ اس کی موجودہ قید کی جگہ پر اس کی تحویل برقرار رکھے۔
درخواست کو اپیل میں تبدیل کردیا گیا تھا اور سپریم کورٹ کے مختصر حکم میں جاری کردہ ہدایات کے مطابق نمٹا دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے لکھا کہ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ایک مداخلتی واقعہ پیش آیا ہے یعنی احتساب عدالت نے درخواست گزار کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ نیب کو دے دیا ہے، جس کے حکم کو انہوں نے ابھی تک چیلنج نہیں کیا۔
تاہم فاضل اٹارنی جنرل کی یہ دلیل موجودہ تناظر میں مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس عدالت نے درخواست گزار کے حوالے سے احتساب عدالت کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی حکم پر فیصلہ نہیں سنایا، صرف 01.05.2023 کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ہدایت کسی بھی طرح احتساب عدالت کے ریمانڈ آرڈر میں مداخلت نہیں کرتی، جسے صرف ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کے فیصلے سے مشروط کیا گیا ہے۔