پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے ججوں کی تقرری کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک جج نے سوال کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں تقرریوں کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہیں، اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔
سپریم کورٹ میں پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ججوں کی تقرری کے معاملے پر سماعت ہوئی، جو درخواست جسٹس طارق آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات نہ کرنے پر دائر کی گئی تھی۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس طارق آفریدی کی بطور ایڈیشنل جج تعیناتی کی منظوری دی، لیکن پارلیمانی کمیٹی نے انٹیلی جنس رپورٹ پر ان کی نامزدگی مسترد کردی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ججوں کی تقرری کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہیں؟ اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی کمیٹی نے پیشہ ورانہ صلاحیت کے بجائے انٹیلی جنس رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس معاملے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لے گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی سفارشات مسترد کر سکتی ہے؟
بعد ازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو آئندہ سماعت پر معاونت کے لیے طلب کرلیا، کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔