اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کم کرنے سے متعلق قانون سے متعلق پارلیمانی ریکارڈ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں کی سماعت کی، جس کا مقصد چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو محدود کرنا ہے۔
بل کا مقصد آئین کے آرٹیکل 184 کی شق (3) کے تحت ازخود نوٹس لینے سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اصل دائرہ اختیار کے استعمال سے متعلق کسی بھی معاملے کو پہلے جانچ کے لئے کمیٹی کے سامنے رکھا جانا چاہئے، اور اگر کمیٹی کو لگتا ہے کہ کسی بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق عوامی اہمیت کا سوال شامل ہے تو اسے سپریم کورٹ کے کم از کم تین ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دینا چاہئے.
سپریم کورٹ نے 14 اپریل کو بل پر عمل درآمد کو اگلے حکم تک روک دیا تھا حالانکہ یہ اس وقت پارلیمنٹ کا قانون نہیں بنا تھا۔
منگل کو ہونے والی سماعت میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وکیل حسن رضا پاشا بھی سماعت میں شریک ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں عبوری حکم جاری کیا تھا، آزاد عدلیہ آئین کا اہم جزو ہے، عدالت نے جو کیس اٹھایا ہے وہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے۔
انہوں نے یہ بھی توقع ظاہر کی کہ تمام فریقین اس معاملے میں سنجیدہ دلائل پیش کریں گے، یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس قانون سازی کے ذریعے آئین کے بنیادی جز کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
ایک موقع پر پی بی سی کے وکیل نے چیف جسٹس سے کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی اور استدعا کی کہ جسٹس نقوی کو بینچ سے خارج کیا جائے کیونکہ ان کے خلاف متعدد ریفرنسز دائر کیے جا چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے لارجر بینچ کی تشکیل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بینچز بنانا ان کا استحقاق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی جج کو اس بنیاد پر بینچ سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان سمیت ججوں کے خلاف شکایات وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مقدمات کی سماعت نہیں کر سکتے۔
بعد ازاں عدالت نے قانون کا پارلیمانی ریکارڈ طلب کرتے ہوئے تمام فریقین اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب طلب کرلیا۔