اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کی مبینہ غیر ملکی سازش کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دینے سے متعلق آئینی درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف دائر تینوں اپیلیں مسترد کردیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزاروں کے وکلاء ذوالفقار بھٹہ، سید طارق بدر اور نعیم الحسن کی جانب سے دائر اپیلوں کی سماعت کی۔
عدالت نے تینوں اپیلیں خارج کرتے ہوئے درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھا، عدالت نے کہا کہ عدلیہ ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار ذوالفقار احمد بھٹہ سے استفسار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ان کی درخواست کیسے قابل ہے؟
ذوالفقار بھٹہ نے جواب دیا کہ یہ معاملہ بہت حساس ہے، کیونکہ رہنما نے ایک ملک پر ان کی حکومت کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا تھا جو نوجوانوں کو پاکستان میں غیر ملکیوں کے خلاف اکسا سکتا ہے ، اور کوئی بھی کچھ کارروائی کرسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے اور یہ متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں سچائی کو ریکارڈ پر لانے کے لئے اقدامات کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس معاملے سے کون سے بنیادی حقوق وابستہ ہیں؟
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 9 افراد کی سلامتی سے متعلق ہے، آرٹیکل 4 قانون کے نفاذ سے متعلق ہے اور آرٹیکل 5 پاکستان کی سلامتی سے متعلق ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر حکومت چاہے تو دنیا بھر سے سائفر بنا سکتی ہے۔
جج نے کہا کہ اگر کوئی اور ایسا کرتا ہے تو وہ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا، عدلیہ ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ جب سائفر موصول ہوا تو وزیراعظم کون تھا؟ کیا خارجہ امور سے نمٹنا عدالت کا کام ہے؟
اس موقع پر ایک اور درخواست گزار طارق بدر کے وکیل جی ایم چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت عمران خان وزیر اعظم تھے، پی ٹی آئی سربراہ نے ریلی کے دوران سائفر بھی لہرایا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان نے بطور وزیراعظم اس معاملے کی تحقیقات کا کوئی فیصلہ کیا تھا، کیونکہ ان کے پاس تحقیقات کے تمام اختیارات تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر تمام اتھارٹیز وزیراعظم کے ماتحت ہیں تو عدالت کو اس سائفر کے معاملے میں کیا کرنا چاہئے؟
سپریم کورٹ کے جج نے یہ بھی نوٹ کیا کہ انہیں تحقیقات کرنے کے لئے سائفر پڑھنا ہوگا۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سائفر کی تحقیقات بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کیس میں بنیادی حقوق کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور سوال کیا کہ ہماری روزمرہ زندگی پر سائفر کا کیا اثر پڑا؟
عدالت نے درخواست گزاروں کے دلائل سننے کے بعد تینوں اپیلیں خارج کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھا۔