اسلام آباد: سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کردی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 8 رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس کے اختیارات پر سوال اٹھانے والے کسی بھی جج کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔
سماعت سے قبل اتحادی جماعتوں کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں حکمراں جماعتوں نے قانون سازی کا عمل مکمل ہونے سے قبل بینچ تشکیل دینے کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا۔
اس سے قبل پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید اور ایگزیکٹو کمیٹی کے وائس چیئرمین حسن رضا پاشا نے کہا تھا کہ چیف جسٹس نے درخواستوں کی سماعت کے لیے جلد بازی میں بینچ تشکیل دیا۔
انہوں نے کہا کہ وکلاء برادری جمعرات کو ملک بھر میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرے گی۔
رواں ہفتے کے اوائل میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے واپس کیے جانے کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چیف جسٹس کے اختیارات ختم کرنے کا بل منظور کیا گیا تھا۔
بعد ازاں راجا عامر خان، چوہدری غلام حسین اور محمد شافع منیر سمیت دیگر کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت تین الگ الگ درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں سپریم کورٹ سے بل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے گزشتہ ہفتے دستخط کیے بغیر اسے واپس کرنے کے بعد وفاقی حکومت نے پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کرایا تھا۔
صدر نے آئین کے آرٹیکل 75 کا حوالہ دیتے ہوئے اس بل کو دوبارہ غور کے لئے پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بادی النظر میں پارلیمنٹ کی اہلیت سے باہر ہے اور اسے رنگین قانون کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
مشترکہ اجلاس کے دوران ایوان نے سپریم کورٹ بل میں ترمیم کی منظوری دی، جس کے تحت ازخود نوٹس کے حوالے سے قواعد و ضوابط وضع کرنے کے لیے ججز کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا۔
یہ ترمیم پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی شازہ فاطمہ خواجہ نے پیش کی تھی، ترمیم کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان یا کمیٹی کا کوئی بھی رکن قواعد و ضوابط کو حتمی شکل دینے تک اجلاس بلا سکتا ہے۔