سپریم کورٹ نے آئینی اہمیت کے مقدمات اور ازخود نوٹسز کی سماعت ملتوی کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت کے تین رکنی بینچ نے حافظ قرآن کو گریس مارکس دینے کے کیس میں حکم جاری کیا، نو صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا جبکہ جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین اور قانون چیف جسٹس کو خصوصی بینچ تشکیل دینے کی اجازت نہیں دیتے، آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں سے متعلق قواعد موجود ہیں۔
ازخود نوٹس مقدمات طے کرنے اور بنچوں کے قیام کے لئے کوئی اصول نہیں ہیں، لہٰذا جب تک اس طرح کے قواعد وضع نہیں کیے جاتے اہم آئینی اور ازخود نوٹس مقدمات کی سماعت ملتوی کی جانی چاہیے۔
ججوں نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے کا حلف لیا ہے، اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سوموٹو کا لفظ آئین میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس اپنی دانشمندی کے لیے آئین کی دانش مندی کی جگہ نہیں لے سکتے، ان کے پاس بنچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو ہٹانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیمرا کا ججوں پر تنقید پر پابندی کا فیصلہ آئین اور اسلام کے خلاف ہے، سماعت کے دوران عدالت کی توجہ پیمرا کی جانب سے ججز پر تنقید نشر کرنے پر پابندی کی جانب مبذول کرائی گئی۔
ریگولیٹری باڈی نے سپریم کورٹ کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ پابندی عائد کی ہے، تاہم عدالتی فیصلہ پیمرا کو اس طرح کی پابندی جاری کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
فیصلے کے مطابق ضلعی عدالتوں کے جج سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں سے زیادہ کام کرتے ہیں، لیکن پیمرا نے ضلعی عدلیہ پر تنقید نشر کرنے پر کبھی پابندی عائد نہیں کی۔
دوسروں کا احتساب نہ کرنے والے ججوں کا احتساب نہ کرنا آئین اور شریعت کے منافی ہے، اداروں کو خود عوام کا اعتماد جیتنا ہوگا۔
اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس وحید کا کہنا ہے کہ جس معاملے پر فیصلہ سنایا گیا ہے وہ عدالت کے سامنے بھی نہیں ہے۔