اسلام آباد: قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک سیما کامل نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کرانے کیلئے 21 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، تاہم اس کے پاس براہ راست فنڈز جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے 14 اپریل کو مرکزی بینک کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے اور آج تک وزارت خزانہ کو اس حوالے سے ‘مناسب مراسلہ’ بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فنڈز جاری کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو دی گئی ڈیڈ لائن آج ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد قومی اسمبلی کے پینل کا خصوصی اجلاس آج طلب کر لیا گیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے وفاقی حکومت کو فنڈز جاری کرنے کے 4 اپریل کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
یہ ہدایات اس وقت جاری کی گئیں جب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ پیش کی، جس میں بتایا گیا تھا کہ وزارت خزانہ 4 اپریل کو تین رکنی بنچ کی ہدایت کے مطابق فنڈز جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت خزانہ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس کے پاس 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے کافی فنڈز نہیں ہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ انتخابات پر دو بار خرچ کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے، سپریم کورٹ نے مرکزی بینک کو فنڈز کا انتظام کرنے کی ہدایت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری فنڈز کے ٹرسٹی عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی طلب کیا گیا تھا، تاہم ذرائع کے مطابق وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہونے کی وجہ سے آج دستیاب نہیں ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما برجیس طاہر نے مزید کہا کہ اگر اسٹیٹ بینک براہ راست الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرتا ہے تو یہ خلاف قانون ہوگا۔
برجیس طاہر نے سوال اٹھایا کہ اگر پنجاب میں الگ الگ انتخابات ہوئے تو اس سے بعد میں دیگر تین صوبوں کے عام انتخابات کے نتائج متاثر ہوں گے، سپریم کورٹ اسٹیٹ بینک کو فنڈز جاری کرنے کا حکم کیسے دے سکتی ہے؟۔