لاہور کی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ ریفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور دیگر کی بریت سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف اور دیگر کے خلاف کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔
نیب شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ کے دوران ان سے کوئی دستاویز برآمد نہیں کرسکا، جس سے ثابت ہو سکے کہ انہوں نے جائیدادوں کی رقم ادا کی۔
استغاثہ نے ریفرنس میں کسی رقم کا بھی ذکر نہیں کیا، شہباز شریف 2008 سے باقاعدگی سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور ان میں سب کچھ ظاہر کر رہے ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ شہباز شریف کے مبینہ قبضے میں شریک ملزمان کی جائیدادیں تلاش نہیں کرسکا۔
مقدمے کی سماعت کے بعد ملزمان کو مجرم قرار دیے جانے کا امکان نہیں ہے اور انہیں بری کر دیا جاتا ہے۔
عدالت نے شہباز شریف، حمزہ شہباز، نصرت شہباز، جویریہ علی اور نثار احمد کو بری کر دیا۔
عدالت نے مفرور قرار دی گئی رابعہ عمران کے مستقل وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے ثبوت جمع کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔
نیب کے جواب کے مطابق شہباز شریف کا ایف ٹی ٹی سے کوئی تعلق نہیں جسے کرپشن سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ ان حالات میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
نیب نے ضمنی تحقیقات میں اعتراف کیا کہ ملزم کے خلاف کرپشن ثابت نہیں ہوسکی۔
ملزم کے وکیل کے مطابق انکم ٹیکس گوشواروں میں دی گئی آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات کو استغاثہ کی جانب سے چیلنج نہیں کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ نیب کی ضمنی تحقیقات کے مطابق شہباز شریف کے اثاثے آمدن سے زیادہ نہیں ہیں۔
نیب کے مطابق شہباز شریف کی جانب سے 2005 سے 2010 تک برطانیہ میں حاصل کیے گئے اثاثے مناسب تھے۔
نیب کے مطابق نصرت شہباز، حمزہ شہباز اور جویریہ شہباز شریف بے نامی دار نہیں ہیں۔