وزیراعظم شہباز شریف نے پیرس میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تیسری بار ملاقات کی جس میں قرض پروگرام کو پورا کرنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
دونوں شخصیات کے درمیان یہ ملاقات وزیر اعظم کے لندن روانگی سے قبل ہوئی اور عالمی رہنماؤں کے سربراہ اجلاس کے موقع پر نئے فنانسنگ معاہدے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی معاشی صورتحال کا اعتراف کرنے پر آئی ایم ایف سربراہ کا شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے، پاکستان سنگین معاشی چیلنجز سے نکلنے میں دنیا کی مدد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب نے معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا لیکن اس کے باوجود حکومت نے اپنے عوام کو ریلیف دیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ریلیف حاصل کرنا پاکستان کے عوام کا حق ہے کیونکہ معاشی چیلنجز نے لوگوں کو ناقابل برداشت تکلیف دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عوام کو ریلیف اور معاشی حقیقت کے درمیان توازن چاہتے ہیں، آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ اہداف کو پورا کرنے کے لیے ملکی معیشت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر لانا ناگزیر ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے چار سال میں تباہ ہونے والی معیشت کی بحالی کے لیے اہم اقدامات کی ضرورت ہے، معیشت کی بحالی سے آئی ایم ایف کے اہداف کے بہتر حصول میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح پاکستان بین الاقوامی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرے گا، آئی ایم ایف سربراہ نے وزیراعظم کے عزم کو سراہا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مذموم پروپیگنڈے اور غلط معلومات کے استعمال سے ہوشیار رہنا چاہیے تاکہ پاکستان اور ریاستی اداروں کا امیج خراب نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی دنیا بھر میں اپنے ممالک میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، مجھے فرانس میں ہماری تارکین وطن برادری کے ممبروں سے ملنے اور بات چیت کرنے پر بہت خوشی ہوئی۔
وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ قوم مادر وطن کے قابل فخر بیٹے اور بیٹیوں کی حیثیت سے ان کی کامیابیوں کا جشن مناتی ہے اور فخر کرتی ہے اور وہ اپنے مادر وطن کے لئے جذبہ محسوس کرتی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے انہیں ان حالات کے بارے میں بتایا جن میں مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالا اور ساتھ ہی گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کو جن بڑے معاشی، سفارتی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے 9 مئی کے المناک واقعات کے سنگین مضمرات پر بھی توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا، جس میں یوم سیاہ کی محتاط اور منظم تیاری بھی شامل ہے۔