لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
سابق وزیر خارجہ قریشی کو ان کی پہلی گرفتاری کے بعد سے متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ شاہ محمود قریشی کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت مزید گرفتار نہ کیا جائے۔
جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے ایم پی او کے احکامات کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین کو ضمانتی مچلکے جمع کرائے بغیر فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عابد عزیز راجوری جبکہ پی ٹی آئی رہنما کی جانب سے وکیل تیمور ملک اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی موجود تھیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے لاء افسر سے استفسار کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی نے کوئی تقریر کی ہے یا کسی احتجاج کی قیادت کی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی سیاسی رہنما سیاسی اجتماع میں اپنے الفاظ پر قابو نہیں رکھ سکتا، عدالت نے سابق وزیر خارجہ کے خلاف شواہد پیش کرنے کی ہدایت کی، اس پر افسر نے ثبوت پیش کرنے کے لئے دو دن کا وقت مانگا۔
تاہم عدالت نے انہیں حکومت سے ہدایات لینے کے بعد ایک گھنٹے کے اندر عدالت کو اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کردی۔
دریں اثناء پنجاب پولیس نے شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمات کی رپورٹ پیش کی، جو پی ٹی آئی رہنما کی بیٹی کی درخواست پر جمع کرائی گئی۔
رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی کے خلاف پنجاب بھر میں 9 مقدمات درج ہیں، ان میں سے چار مقدمات لاہور میں جبکہ پانچ مقدمات ملتان کے مختلف تھانوں میں درج ہیں۔
واضح رہے کہ 9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہروں کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد سینئر رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
کرپشن کے الزام میں ان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
شاہ محمود قریشی کے علاوہ اسد عمر، شیریں مزاری، فواد چوہدری اور یاسمین راشد ان اہم ناموں میں شامل ہیں جنہیں حراست میں لیا گیا ہے۔
تاہم عمر، شیریں مزاری اور فواد چوہدری سمیت کچھ رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے پرتشدد مظاہروں کی مذمت میں پارٹی چھوڑ دی ہے اور سابق وزیر اعظم سے الگ ہو گئے ہیں۔