غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے نگران حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن مقرر کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ مقررہ مدت کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
منگل کو نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عبوری وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ اجلاس میں غیر قانونی “غیر ملکیوں” کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے لئے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے شرکت کی۔
یہ فیصلہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے جس میں 60 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات میں مبینہ طور پر افغان شہریوں یا سرزمین کا استعمال کیا گیا۔
آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی جاری کردہ اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق 2023 کی پہلی ششماہی کے دوران کم از کم 271 عسکریت پسند حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 389 افراد ہلاک اور 656 افراد زخمی ہوئے۔ اس عرصے کے دوران ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں 79 فیصد اضافہ ہوا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیر داخلہ نے انکشاف کیا کہ رواں سال ملک میں ہونے والے 24 خودکش دھماکوں میں سے 14 کے ذمہ دار افغان شہری ہیں۔
انہوں نے غیر قانونی تارکین وطن کو خبردار کیا کہ وہ یکم نومبر تک پاکستان چھوڑ دیں ورنہ انہیں زبردستی ملک بدر کر دیا جائے گا۔
بگٹی نے کہا کہ پاکستان میں تقریبا 1.73 ملین افغان شہریوں کے پاس رہنے کے لئے کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر 4.4 ملین افغان مہاجرین پاکستان میں رہ رہے ہیں۔
بگٹی نے مزید کہا کہ تمام ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے متحرک کیا جائے گا اور انہیں یکم نومبر کے بعد ملک بدر کردیا جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد ان غیر قانونی شہریوں کے ذریعہ چلائی جانے والی تمام غیر قانونی جائیدادوں اور کاروباروں کو بھی ضبط کر لیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی بھی پاکستانی شہری غیر قانونی کاروبار اور ان غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کی جانب سے بڑی جائیدادیں بنانے میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔