سندھ کے وزیر محنت و انسانی وسائل سعید غنی نے میئر کراچی کے انتخاب کے معاملے پر اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے، اگر حافظ نعیم الرحمان ڈپٹی میئر بننے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔
یہ تجویز کراچی میں سعید غنی کی میڈیا ٹاک کے دوران ایک سوال کے جواب میں سامنے آئی، صوبائی وزیر نے رضاکارانہ طور پر حافظ نعیم کی پیشکش قبول کرنے پر اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے، اور کہا کہ پیپلز پارٹی کراچی کے معاملات چلانے کے لیے شہر میں بلدیاتی انتخابات میں نشستیں جیتنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی انتخابات کے بعد 367 رکنی ایوان میں 155 ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے، جس میں مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔
اس وقت ایوان میں کسی ایک جماعت کے پاس 179 ووٹوں کی سادہ اکثریت نہیں ہے، یہ گنتی اس بات کا تعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورٹ سٹی کے میئر کی نشست کون جیتتا ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مجموعی تعداد 175 ہے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی 130 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، جس میں مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں، جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مجموعی طور پر 63 نشستیں حاصل کی ہیں، دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد 193 ہے۔
بظاہر اتحاد کے پاس اس نشست پر کامیابی کے لیے کافی تعداد موجود ہے، لیکن پیپلز پارٹی دعویٰ کر رہی ہے کہ اس بار شہر پر ایک ‘جیالا’ حکمرانی کرے گا اور میئر کراچی کے عہدے کے لیے ایک غیر منتخب امیدوار مرتضیٰ وہاب کو منتخب کیا ہے۔
کراچی کے میئر کے عہدے کے لیے انتخابات 15 جون کو ہوں گے، ہفتہ کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ حافظ نعیم جو جماعت اسلامی کراچی کے امیر بھی ہیں، نے یہ محسوس کرنے کے بعد آئندہ میئر کے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرنا شروع کردی ہے کہ انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے ملک میں 9 مئی کے پرتشدد واقعات سے پہلے انکشاف کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے نو منتخب بلدیاتی نمائندوں نے اپنی پارٹی قیادت کو آگاہ کیا تھا کہ وہ میئر کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔
پی پی پی کراچی کے صدر نے کہا کہ حافظ نعیم کو بتانا چاہیے کہ ان کی اپنی پارٹی اور پی ٹی آئی کے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں میں سے کتنے اس وقت آئے تھے، جب انہیں ادارا نور الحق میں استقبالیہ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ دعوت نامہ موصول ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چند یوسی چیئرمین اور تمام نومنتخب بلدیاتی نمائندے تقریب کے مقام پر نہیں پہنچے تھے، جس کے نتیجے میں حافظ نعیم کو استقبالیہ منسوخ کرنا پڑا۔