پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے عام انتخابات میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیے جانے کے بعد سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ پارٹی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابات ملتوی کیے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ مردم شماری 2023 کے نوٹیفکیشن کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت کی وجہ سے تین ماہ میں انتخابات نہیں ہوسکتے، جیسا کہ سی سی آئی نے فیصلہ کیا ہے۔
اس کے جواب میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ‘غیر آئینی’ ہے کیونکہ الیکشن کمیشن 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
خانگی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر پر پیپلز پارٹی کا اعتراض درست ہے لیکن مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے بعد حلقہ بندیاں آئینی تقاضا ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ سی سی آئی نے پیپلز پارٹی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام جماعتوں نے اس نکتے پر اتفاق کیا ہے کہ 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر صرف ایک الیکشن (2018) ہوا تھا اور اب نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کروانا آئینی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر انتخابات پرانی مردم شماری کی بنیاد پر ہوتے ہیں تو یہ غیر آئینی ہوگا اور اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور یہ قائم نہیں رہے گا۔
ثناء اللہ نے مزید کہا کہ مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے بعد حلقہ بندیوں کو دوبارہ ترتیب دیا جاتا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا پیپلز پارٹی کو آرٹیکل 51 کی شق 5 کا علم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہتا تھا کہ انتخابات 90 دن کے بجائے 60 دن میں ہوں۔ میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حیثیت سے واقف ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ فروری 2024 میں انتخابات ہوں گے، الیکشن کمیشن 14 دسمبر تک حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیوں نہیں کرے گا؟
سابق وزیر نے مزید کہا کہ حلقہ بندیاں آئینی تقاضہ ہے اور اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 90 دن میں انتخابات کا انعقاد بھی ایک آئینی تقاضہ ہے لیکن اس میں گنجائش ہے۔