سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اختیار صرف چیف جسٹس یا سینئر جج کے پاس نہیں ہے۔
اسلام آباد میں آئین پاکستان سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کی 50 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، یہ میرے لیے کتاب نہیں ہے، کیونکہ اس میں عوام کے حقوق شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین صرف سیاستدانوں، چند لوگوں، پارلیمنٹ یا عدلیہ کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جب بھی ناانصافی ہوتی ہے تو یہ زیادہ دیر تک نہیں رہتی، ایک غلط فیصلہ غلط رہے گا، چاہے وہ اکثریت سے ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے اہم نہیں ہے، رائے آئین کی ہوگی۔
سقوط ڈھاکہ کے سیاہ باب کے بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1971 میں پاکستان اچانک دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوا، اس کے بیج جسٹس منیر نے فروری 1974 میں بوئے تھے، جب شیخ مجیب کو اسلامی تعاون تنظیم کی دوسری کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منیر کا فیصلہ درست تھا یا نہیں اس کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے ہونا چاہیے، تاریخ نے ہمیں سات مرتبہ سکھایا ہے، آئین ہم پر بھاری بوجھ ہے، ہم نے آئین کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج نے ریمارکس دیے کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت نے سزائے موت سنائی، پھر جمہوریت اور ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا گیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب ریفرنڈم ہوتا ہے تو ٹرن آؤٹ 98 فیصد ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین ایک ایسا تحفہ ہے، جو دوبارہ نہیں دیا جائے گا، اسے کئی بار نقصان پہنچا ہے، لیکن آج بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999 کو ایک سرکاری افسر نے ملک پر قبضہ کیا، نومبر 2007 کو ڈکٹیٹر نے ایک اور غیر آئینی قدم اٹھایا، پرویز مشرف نے خود خود کو آئینی تحفظ فراہم کیا، ایک غلط فیصلہ غلط رہے گا چاہے وہ اکثریت سے ہی کیوں نہ ہو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ نگران حکومتوں کا تصور انتخابات میں شفافیت کے لیے دیا گیا، انہوں نے کہا کہ جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
ازخود نوٹس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں سپریم کورٹ کو سوموٹو کا اختیار دیا گیا ہے، کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ یہ اختیار چیف جسٹس یا سینئر جج کا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ سپریم کورٹ کا مطلب اس کے تمام ججز ہیں، سوموٹو شق پر ہر قدم احتیاط سے اٹھایا جانا چاہیے۔
سینئر جج نے کہا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات پر اپنی رائے نہیں دیں گے، میں اپنا بیان دینے سے پہلے دوسروں کی رائے سننا چاہتا ہوں، کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہیں۔