اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی دارالحکومتوں سے رابطہ کر کے انہیں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی بحالی کیلئے پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کیا ہے۔
اجلاس کے کم از کم تین شرکا نے بتایا کہ وزیر اعظم نے مغربی، یورپی اور ایشیائی ممالک کے سفیروں کے ساتھ پس منظر میں ملاقات کی۔
یہ ملاقات آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی میعاد ختم ہونے سے صرف 11 دن قبل ہوئی تھی، جو اس طرح کی آخری بات چیت بھی ہوسکتی ہے۔
اجلاس میں شریک ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیراعظم نے غیر ملکی سفیروں کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور انہوں نے ذاتی طور پر گزشتہ کئی ماہ کے دوران کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ایک بار پھر دلچسپی کا اظہار کیا کہ حکومت بقیہ 2.6 ارب ڈالر میں سے کم از کم 1.2 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کی خواہاں ہے، جو زیر التواء نویں جائزہ کی تکمیل سے منسلک ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، جاپان، چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں کو مدعو کیا تھا۔
اجلاس کے ایک اور شرکا کے مطابق کچھ سفیروں نے حکومت سے وضاحت طلب کی لیکن یقین دلایا کہ وہ اپنے دارالحکومتوں کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کریں گے، سفیر آئی ایم ایف کے عملے سے بھی رابطے میں ہیں۔
ملاقات کے بعد وزیراعظم آفس کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اقتصادی ٹیم نے گزشتہ سال اکتوبر میں آئی ایم ایف کی ٹیم کو نظرثانی مذاکرات کے لیے مدعو کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر غور کیا تھا تاہم آئی ایم ایف کو دعوت کا جواب دینے میں تین ماہ لگ گئے۔
حکام کے مطابق غیر ملکی سفارتکاروں کو بتایا گیا کہ فروری میں ملک نے 170 ارب روپے کے منی بجٹ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، شرح سود میں اضافہ اور ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی قوتوں پر چھوڑنے سمیت تمام متفقہ اقدامات کیے۔
وزارت خزانہ کے مطابق 27 مئی کو وزیر اعظم اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کے دوران بیرونی فنانسنگ کا فرق بھی حل ہوگیا تھا۔
تاہم پاکستان اور آئی ایم ایف کے موقف بالخصوص مجوزہ بجٹ میں ترامیم، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ماہانہ وظیفے میں اضافے، پیٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافے اور فارن کرنسی مارکیٹ میں بہتری کے معاملے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے مؤقف میں فرق برقرار ہے۔
پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں بہتری کی وجہ سے بیرونی فنانسنگ کے خلا کو پر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے سالانہ خسارے کے تخمینے کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران خسارہ صرف 2.9 ارب ڈالر رہا۔
مرکزی بینک نے پیر کے روز یہ بھی بتایا کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں مئی میں 255 ملین ڈالر سرپلس ظاہر ہوئے۔ اس کے نتیجے میں رواں مالی سال کے جولائی تا مئی کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صرف 2.94 ارب ڈالر رہا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ خسارہ 15.16 ارب ڈالر تھا۔
اسحاق ڈار خسارے کو تیزی سے کم کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں، جس نے اب تک بڑھتے ہوئے ڈیفالٹ کو روکنے میں مدد کی ہے۔
تاہم چین کے ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالر موصول ہونے کے باوجود جمعہ تک سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 3.5 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے۔
ملک نے گزشتہ جمعے کو بینک آف چائنا کے 300 ملین ڈالر کے قرض کی ادائیگی اور دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کو 350 ملین ڈالر مالیت کی ایک درجن سے زیادہ چھوٹی ادائیگیاں کیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 300 ملین ڈالر کی چینی فنانسنگ کی وجہ سے ذخائر بدھ تک بڑھ کر 3.8 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں جو جلد ملنے کی توقع ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ اپنی بات چیت کا بھی ذکر کیا، جس میں تین خطوط بھی شامل ہیں جو انہوں نے صرف ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں جارجیوا کو لکھے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے پہلے 19 مئی کو منیجنگ ڈائریکٹر کو خط لکھا، پھر بجٹ پیش کرنے کے بعد 12 جون کو اور پھر 16 جون کو۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر بار آئی ایم ایف نے خطوط کا جواب دیا اور زیر التوا اقدامات کے بارے میں جوابی نقطہ نظر پیش کیا جو آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو نویں جائزہ مکمل کرنے کے لیے ابھی کرنا ہے۔
اپنے خطوط میں وزیر اعظم نے زرمبادلہ مارکیٹ کے مناسب کام کاج، بجٹ اقدامات اور بجلی کی سبسڈی ختم کرنے کا ذکر کیا۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق خط کے جواب میں آئی ایم ایف نے یقین دلایا کہ وہ زیر التوا اقدامات کی تکمیل سے مشروط نویں جائزہ بھی مکمل کرنے کا خواہاں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے ایک بار پھر مجوزہ بجٹ کو پروگرام کے مقاصد کے مطابق لانے اور ایک لاکھ ڈالر کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے مستفید ہونے والے 93 لاکھ افراد کو افراط زر میں ایڈجسٹڈ اضافہ دینے کا بھی کہا ہے، حکومت کا خیال ہے کہ وہ پہلے ہی وظیفے میں 25 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔
آئی ایم ایف نے حکومت سے پیٹرولیم لیوی میں 10 سے 60 روپے فی لیٹر اضافے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ صوبے نقد سرپلس پیدا کرنے کے لیے آہنی گارنٹی فراہم کریں۔
بلومبرگ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے جولائی میں شروع ہونے والے اگلے مالی سال کی پہلی ششماہی میں ڈالر کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی اور ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ عرصے تک ڈیفالٹ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
پیر کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے مالی سال 2024 میں ہماری توقع ات سے کہیں کم شرح نمو اور افراط زر اور شرح سود کے امکانات میں بھی اضافہ ہوگا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جولائی سے دسمبر کے درمیان پاکستان کو اضافی 4 ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے جو واپس نہیں کیے جا سکتے، مالی سال 2024 کے آغاز میں زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے کم ہونے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی نئے بیل آؤٹ پر بات چیت اکتوبر میں انتخابات کے بعد تک شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔