لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے حلف نامے اور پاور آف اٹارنی پر مختلف دستخطوں کا نوٹس لے لیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے پر ان کے خلاف درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کی جانب سے ضمانت منسوخ کیے جانے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی جانب سے بدھ کو پیش نہ ہونے پر ضمانت منسوخ کرتے ہوئے طبی بنیادوں پر ایک اور استثنیٰ کی درخواست کی تھی۔
عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو سہ پہر ساڑھے تین بجے تک حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تاہم سمن کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
سماعت کے آغاز پر عمران خان کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے اپنا پاور آف اٹارنی پیش کیا، جنہیں آج ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی۔
وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے ڈاکٹروں سے ملاقات جاری ہے اور پارٹی کو ان کی سیکیورٹی پر تحفظات ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ جواب میں وکیل نے کہا کہ وہ دو گھنٹے میں عمران خان کی موجودگی کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کریں گے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی، سماعت دوبارہ شروع ہونے کے بعد صدیق کے ساتھی نے مزید وقت کی درخواست کی۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 بجے تک ملتوی کردی۔
سماعت دوبارہ شروع ہونے پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ضمانت کی ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ڈاکٹروں سے ملاقات کی ہے اور وہ عدالتی احکامات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کا ڈاکٹر بھی عدالت میں موجود ہے۔
تاہم جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ڈاکٹر سے سننا نہیں چاہتے، عمران خان کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔
اس کے بعد وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ دوسری ضمانت عرضی کا انتظار کرے جو دائر کی جارہی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، موجودہ درخواست پر اپنے دلائل پیش کریں، اس کے بعد وکیل نے جج کو بتایا کہ وہ موجودہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
اس پر جسٹس شیخ نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ حلف نامہ اور پاور آف اٹارنی پر عمران خان کے مختلف دستخط ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ دستخط کیسے مختلف ہوسکتے ہیں؟ اس کے بعد عمران خان کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں اس معاملے کو دیکھنے کے لئے وقت دیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ ابھی اسے دیکھ رہے ہیں، کسی نے فراڈ کرنے کی کوشش کی، میں آپ یا عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا وہ درخواست واپس نہیں لینے دیں گے۔
انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس بارے میں عمران خان سے ہدایات لینی ہوں گی۔
بعد ازاں عدالت نے مختلف دستخطوں کا نوٹس لیتے ہوئے سماعت ساڑھے 6 بجے تک ملتوی کردی۔