غزہ (ویبڈیسک): فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ ہماری جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے سے پیچھے ہٹنے سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان گمراہ کن ہے۔ حماس ترجمان نے کہا کہ حالیہ مزاکرات کے بعد جو تجاویز دی گئی ہیں وہ ان تجاویز سے مختلف ہیں جو امریکی صدر جو بائیڈن نے پیش کی تھیں اور جن پر 2 جولائی کو تمام فریقین نے اتفاق کیا تھا۔ حماس نے کہا کہ ہم اسے امریکا کی جانب سے نیتن یاہو کی نئی شرائط کو قبول کرنے اور غزہ میں اس کے مجرمانہ منصوبوں کے لیے رضامندی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس سے قبل حماس نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ نئی تجاویز اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خیالات سے مکمل ہم آہنگ ہیں جو غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور مکمل جنگ بندی سے انکار کرچکا ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیانات کے باوجود اسرائیل غزہ سے فوج کے انخلا پر تیار ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل جولائی میں امریکی صدر نے اسرائیلی حکام سے مشاورت کے بعد 3 مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدہ تجویز کیا تھا جس پر حماس نے بھی اتفاق کیا تھا۔
ان تجاویز کے مطابق پہلا مرحلہ 6 ہفتے تک ابتدائی جنگ بندی کا تھا، اس دوران اسرائیلی فوجیں غزہ سے نکل جائیں گی، یرغمالیوں اور سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا، فلسطینی شہری غزہ واپس جائیں گے اور غزہ میں روزانہ 600 ٹرک امداد لے کر آئیں گے۔
دوسرے مرحلے میں حماس اور اسرائیل جنگ کے مستقل خاتمے کی شرائط پر بات چیت کریں گے اور تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو ہونا تھی مگر بعد ازاں اسرائیل ان مذاکرات سے پیچھے ہٹ گیا اور پھر جنگ بندی معاہدے کو حتمی شکل نا دی جاسکی۔