2018 میں عالمگیر ترین اور علی ترین نے ایک کنسورشیم تشکیل دیا اور ملتان سلطانز فرنچائز کو سات سال کی مدت کے لیے 6.35 ملین ڈالر کی ریکارڈ سالانہ فیس ادا کرکے محفوظ بنایا۔
فرنچائز میں عالمگیر ترین کا اکثریتی حصہ تھا، تاہم 2021 میں علی ترین نے ٹیم سے اپنی وابستگی ختم کرتے ہوئے عالمگیر کو واحد مالک کے طور پر چھوڑ دیا، اس تبدیلی کا اعلان کرنے کے لئے ایک میڈیا ریلیز جاری کی گئی تھی۔
لیگ میں بہتر کارکردگی کے باوجود ملتان سلطانز کی فرنچائز کو ہر سال کافی مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
عالمگیر ترین کے انتقال کے بعد فرنچائز کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) فرنچائز کے حوالے سے ان کے مستقبل کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کے لیے علی ترین سے رابطہ کرے گا۔
علی ترین کی فرنچائز سے علیحدگی کے اعلان اور ملکیت تبدیل کرنے کا عمل شروع ہونے کے باوجود قانونی دستاویزات میں ان کا نام بطور شریک مالک درج ہے۔
اگر علی ترین مالکانہ حقوق برقرار رکھنے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں تو انہیں فرنچائز فیس سمیت ضروری ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔
تاہم اگر انہوں نے فرنچائز کے انتظام میں عدم دلچسپی ظاہر کی تو بورڈ فرنچائز کے لیے دوبارہ بولی لگانے کا عمل شروع کرے گا۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ ملتان سلطانز طویل عرصے سے اپنے مالی مسائل کا حل تلاش کر رہی تھی، گورننگ کونسل کے اجلاس کے دوران ایک فرنچائز کے مالک نے یہ تشویش ظاہر کی جسے بظاہر وہاں موجود دیگر افراد نے تسلیم کیا۔ اس وقت کئی مالکان ملتان سلطانز کو ریلیف دینے کے حق میں نہیں تھے تاہم کسی نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔
مختلف تجاویز پیش کی گئیں جن میں فرنچائز فیس اور قسطوں کی ادائیگی میں کمی بھی شامل ہے۔
تاہم قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ بورڈ فیس کم کرنے کے بارے میں محتاط تھا، کیونکہ پچھلے بولی دہندگان ممکنہ طور پر قانونی کارروائی کرسکتے تھے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ وہ اتنی ہی کم رقم ادا کرسکتے تھے، نتیجتا ملتان سلطانز کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوسکا۔