اسلام آباد (ویبڈیسک): مبارک ثانی ضمانت کیس میں پنجاب حکومت کی نظر ثانی درخواست پر سپریم کورٹ نے مفتی تقی عثمانی، مولانافضل الرحمان اور دیگر علما سے معاونت لینےکا فیصلہ کیا ہے۔سپریم کورٹ میں مبارک ثانی ضمانت کیس میں پنجاب حکومت کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیےکہ میں کسی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں، اگر ہم سےکوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی پچاسویں سالگرہ پر وہ خود پارلیمنٹ میں گئے ، آپ کا شکریہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں،کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا توپارلیمنٹ اور علمائےکرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا خط ملا تھا اور وزیراعظم نے بھی ہدایات دی تھیں، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہوسکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئی ہیں، فریقین کو نوٹس جاری کردیےگئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیولنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، معاملہ مذہبی ہے تو علماکرام کو سن لیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ کون کون سے علما کرام عدالت میں موجود ہیں؟ ہم تعین کرناچاہتےہیں کہ ہماری کون کون رہنمائی کرےگا، چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہےتوبتائیں، دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔
مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے یہ واضح کر رہے ہیں، تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت ساری دستاویزات ملیں، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلےکی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو نہیں دیکھ سکا وہ میری کوتاہی ہے، عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے، عدالتی فیصلوں میں قرآن وحدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں کسی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔
عدالت نے مفتی تقی عثمانی، مولانافضل الرحمان، مفتی شیرمحمد اور عدالت میں موجود دیگر علما سےمعاونت لینےکافیصلہ کیا۔صاحبزادہ ابو الخیرمحمد زبیر، جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی سپریم کورٹ کی معاونت کریں گے۔
مفتی تقی عثمانی نے سپریم کورٹ فیصلے کے دو پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کی، مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پیراگراف نمبر 7 اور 42 کو حذف کیا جائے۔ مفتی تقی عثمانی نے مقدمے سے دفعات ختم کرنےکے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کی۔ انہوں نےکہا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونےکا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے، اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے، عدالت نے سیکشن 298 سی کو مدنظر نہیں رکھا، معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب آگے دیکھنا چاہیے، اگر سب علما کی رائے فیصلے میں شامل ہوتی تو فیصلے کی کتاب بن جاتی۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مولانا فضل الرحمان کو روسٹرم پر بلالیا۔
چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ مولانا صاحب آپ کےآنےکا شکریہ۔ مولانا فضل الرحمان نےکہا کہ علما کی اپنی رائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنےآچکی ہے، آپ نے فرمایا کہ آپ سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، میں 72 سال کی عمر میں پہلی بار کسی عدالت کے سامنے کھڑا ہوا، مجھے اللہ نے عدالت سے بچائے رکھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اتنے برے نہیں ہیں، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج آپ سب شکایات کا ازالہ کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کی گزار شات کی حمایت کردی۔ مولانا فضل الرحمان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ پورے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس سےکہا کہ جو تحفظات ہیں سب آپ کے سامنے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ والدصاحب کے انتقال پر مفتی محمود صاحب تعزیت کے لیےگھر آئے تھے، تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتا، گورداس پور، فیروزپور ہمیں ملتے تو کشمیر ہمارے ہاتھ سے نہ جاتا، پاکستان کے لیے جنگ میرے والد صاحب نے بھی لڑی ہے، میرے والد نے ہر چیز پاکستان کے لیے لگادی، کسی نے مجھےقتل کی دھمکی دی، میں نےکسی سے بدلہ نہیں اتارا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آپ شکایت کا ازالہ کر رہے ہیں، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دی ہم نے فوری لگادی۔ اس پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کئی سماعتیں عدالت کی ہوئیں، اب نظرثانی کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نظرثانی نہیں، جس پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ نظرِ ثالث ہے، مبارک ثانی کو آپ ضمانت کا مستحق سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے، اس کے توہین آمیز اقدامات پر مگر دفعات ساری اس پر لگیں گی، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی کمیٹی کا فیصلہ پارلیمان نے ویب سائیٹ پر ابھی نہیں ڈالا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ آپ پارلیمنٹ میں اٹھائیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء کو مدنظر رکھا جائے۔
مفتی طیب قریشی نے کہا کہ عدالت سے ہاتھ باندھ کر استدعا کر رہا ہوں مسلمان مضطرب ہیں انہیں تسلی دیں، جو تجاویز علما نے دی ہیں ان پر عمل درآمدکیا جائے، ان سے متفق ہوں، مفتی طیب قریشی نے چیف جسٹس کو پشاور میں مسجد مہابت خان کے دورے کی دعوت دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مسجد شاید چوک یادگار میں ہے؟ ان کے والد نے تحریک پاکستان میں سب سے بہترین تقریر چوک یادگار میں کی تھی، میرے والدکہتے ہیں سارا مجمع مسلم لیگ مخالف تھا، تقریرکے بعد سب نےقائداعظم کےنعرے لگائے۔
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نظرثانی فیصلےکا پیراگراف 42 حذف کرے۔
جماعت اسلامی کے فرید پراچہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرا 7 پر ہمیں اعتراض ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمان نے جو تفصیلات رکھیں اس کے علاوہ کوئی نئی بات ہے توبتائیں۔
فرید پراچہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے پیرا 37،38،39،40 اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔
مذہبی اسکالر ڈاکٹرعطا الرحمان نے اپنے دلائل میں کہا کہ کچھ چیزیں قابل تعریف ہیں ان کا ذکر ہوناچاہیے، آپ عدالتی فیصلوں پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا معاملہ قابل تحسین اقدام تھا، شریعت اپیلیٹ بینچ کئی عرصےسےالتوا میں تھا اسے آپ نے مکمل کیا، مبارک ثانی کیس میں ہمیں امید ہے یہ آخری موقع ہوگا اور مناسب فیصلہ آئےگا، اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم دیگر علما کی طرح متفق ہیں، مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما اور سینئر وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اراکین پارلیمنٹ کے طور پر سنا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کھوسہ صاحب، پارلیمنٹ بہت بااختیار ہے، پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ختم کرسکتی ہے، آپ توپارلیمنٹ سے فیصلہ ختم بھی کراسکتےہیں۔