وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فنانس بل 2023 کی منظوری دی گئی، جس کے تحت آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور قرض پروگرام کی بحالی کے لیے غیر معمولی ٹیکس لگائے جائیں گے۔
170 ارب روپے سے زائد کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، جس کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس طلب کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام اور مجوزہ ٹیکس اقدامات کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دینے کے لیے طے شدہ پریس کانفرنس آخری لمحات میں منسوخ کردی گئی۔
دیگر چیزوں کے علاوہ فنانس بل میں کچھ اشیاء پر جی ایس ٹی کو 16 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
ٹیکسوں میں کسی بھی اضافے سے پہلے ہی مارکیٹ میں سگریٹ مہنگے ہونے کی اطلاع دی گئی تھی، سگریٹ کے مختلف برانڈز کے ایک پیکٹ کی قیمت میں 20 سے 30 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
نان فائلرز کے لیے مشروبات، ہوائی ٹکٹوں اور بینک ٹرانزیکشنز پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا، پرتعیش اشیاء پر ڈیوٹی کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
کابینہ نے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں اور گردشی قرضوں سے نمٹنے کے منصوبے کی بھی منظوری دی۔
وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی سرکاری دفاتر میں کفایت شعاری کے اقدامات تجویز کرنے کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے چکے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کابینہ اجلاس کو صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کے بارے میں بریفنگ دی، جس میں انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ سے کہا کہ فنانس بل آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کے بجائے پارلیمنٹ سے منظور کروائیں۔
انہوں نے اجلاس کو معاشی صورتحال پر بھی بریفنگ دی اور وزیراعظم کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاملات اور منی بجٹ پر اعتماد میں لیا۔
وفاقی کابینہ نے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں عوام کے بجلی کے بل معاف کرنے کی بھی منظوری دے دی۔
اجلاس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے صارفین کے لیے اگست اور ستمبر 2022 کے لیے 10 ارب 34 کروڑ روپے کی سبسڈی کی منظوری دی گئی۔
صرف 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔