اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آمریت کے سائے میں عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو ختم نہیں کرسکتے۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے 29 مارچ کو سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترمیم تک ازخود نوٹس کیسز ملتوی کرنے کے اپنے حکم کا حوالہ دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 9 صفحات پر مشتمل اپنے نوٹ میں کہا کہ چونکہ 6 معزز ججوں کی عدالت میں جمع ہونا آئین یا کسی قانون کے تحت جائز نہیں ہے، اس لیے کیس نمبر 4 میں سپریم کورٹ کے 29 مارچ 2023 کے حکم کو 4 اپریل کے نوٹ کے ذریعے کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔
29 مارچ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس (داخلہ، ہاؤس جاب اور انٹرن شپ) ریگولیشنز کے ریگولیشن 9 (9) کے تحت ایم بی بی ایس/ بی ڈی ایس ڈگری میں داخلے میں حافظ قرآن کو 20 نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں 29 مارچ کو حکم جاری کیا تھا۔
بنچ نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اس معاملے اور دیگر تمام معاملوں کی سماعت کو اس وقت تک ملتوی کرنے کے لئے شہریوں کے مفاد کو بہتر بنایا جائے گا جب تک کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت مطلوبہ قواعد بنا کر معاملوں کو پہلی بار حل نہیں کیا جاتا۔
عدالت نے مزید کہا تھا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی قواعد چیف جسٹس یا رجسٹرار کو خصوصی بنچ بنانے کا اختیار دیتے ہیں، ججوں کا انتخاب کرتے ہیں جو دیگر بنچوں میں ہوں گے اور ان معاملوں کا فیصلہ کریں گے جن کی وہ سماعت کریں گے۔
بعد ازاں 4 اپریل کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس سید حسن رضوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے کیس نمٹا دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں 6 رکنی لارجر بنچ کی جانب سے کی گئی ‘طریقہ کار کی بے ضابطگیوں’ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ روسٹر اسی دن جاری کیا گیا تھا، جو صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب غیر معمولی ایمرجنسی ہوتی ہے، لیکن فوری معاملے میں کوئی نہیں تھا۔