چینی حکام کی جانب سے 2003 میں سارس کی وبا پر پردہ ڈالنے کے خلاف آواز اٹھانے والے سابق فوجی سرجن جیانگ یانیونگ 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ہانگ کانگ میں ان کے خاندانی دوستوں اور چینی زبان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق وہ ہفتے کے روز بیجنگ میں نمونیا کی وجہ سے انتقال کر گئے۔
ڈاکٹر جیانگ کو سارس بحران کے ابتدائی مرحلے میں ایک خط لکھنے کے بعد زندگیاں بچانے پر سراہا گیا تھا، جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ حکام اس خطرے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
ایک موقع پر انہیں اپنی غیر متزلزل بے باکی کی وجہ سے گھر میں نظربند رکھا گیا، سارس نے 2003 میں دنیا بھر میں 8,000 سے زیادہ افراد کو متاثر کیا تھا، ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 774 ہلاک ہوئے۔
ڈاکٹر جیانگ اپریل 2003 میں بیجنگ کے ایک ہسپتال میں کام کر رہے تھے، جب وہ چینی وزیر صحت کو یہ سن کر پریشان ہو گئے کہ سانس کی ایک نئی مہلک بیماری کے صرف مٹھی بھر کیسز ہیں۔
سینئر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صرف فوجی اسپتالوں کے وارڈز میں 100 سے زائد افراد سارس کے مرض میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے سرکاری بیانیے میں موجود جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک خط چین کے سرکاری نشریاتی اداروں کو بھیجا، جنہوں نے اسے نظر انداز کر دیا، لیکن اس کے بعد یہ خط غیر ملکی میڈیا میں لیک ہو گیا، جس نے ان کے اکاؤنٹ کو مکمل طور پر شائع کیا۔
ان کے انکشافات نے چینی حکومت کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا کہ اس نے غلط معلومات فراہم کیں اور ڈبلیو ایچ او کو کارروائی کی ترغیب دی۔
راتوں رات سخت روک تھام کے اقدامات کیے گئے ، جس سے وائرس کے پھیلاؤ کو سست کرنے میں مدد ملی۔
ان کے اقدامات کی وجہ سے اس وقت چین کے وزیر صحت اور بیجنگ کے میئر کو بھی برطرف کر دیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ مجھے یہ بتانا ہوگا کہ نہ صرف چین کو بچانے کے لیے بلکہ دنیا کو بچانے کے لیے بھی کیا ہو رہا ہے۔