(ویب ڈیسک ):اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں غذائی قتل کی ٹارگٹڈ مہم شروع کر رکھی ہے جس کے باعث بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے 10 آزاد ماہرین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر فلسطینیوں کے خلاف غذائی قحط کی مہم شروع کر رکھی ہے جو کہ نسل کشی کی ایک قسم ہے اور جس کے باعث غزہ میں بچے بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفارتی مشن نے یو این ماہرین کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماہرین پر غلط معلومات پھیلانے اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے پروپیگنڈے کو عام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی اکتوبر 2023 سے شروع کی گئی فوجی مہم میں اب تک 33 بچے بھوک کے باعث جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں جن میں سے زیادہ تعداد شمالی غزہ کے بچوں کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ مہینوں میں اسرائیل نے زمینی کارروائیوں کو جنوبی غزہ تک پھیلایا ہے جس کے باعث محصور فلسطینوں کو امدادی خوراک کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے 6 ماہ کے شیر خوار بچے، 9 سالہ کمسن اور 13 سالہ لڑکے کی موت واضح کرتی ہے کہ بھوک و افلاس شمالی غزہ سے وسطی اور جنوبی غزہ تک پھیل چکی ہے۔
خان یونس میں زیر علاج ایک بچے کی والدہ نے خبر ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کا بچہ بھوک کے باعث مر جائیگا، یہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے کہ میں جنگ کی وجہ سے اپنے بچے کو کچھ بھی نہیں دے سکتی۔
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ گلوبل مانیٹر انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) نے بھی بھوک و افلاس سے متعلق خبروں کا تیکنیکی جائزہ لیا اور گزشتہ ماہ اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا کہ مسلسل جنگ اور امدادی خوراک کی فراہمی میں رکاوٹوں کی وجہ سے غزہ بدترین غذائی قلت کا شکار ہے۔
آئی پی سی کے مطابق غزہ میں 4 لاکھ 95 ہزار سے زائد افراد بدترین غذائی قحط سالی کا شکار ہیں، یعنی غزہ کے عوام انتہائی درجے کی غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے اسرائیلی مشن کا کہنا ہے کہ ہم غزہ پٹی میں امدادی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اسی سلسلے میں حال ہی میں غزہ کو پانی فراہم کرنے والی لائنوں کے کنکشن کیے گئے۔