نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایران نے کس حد تک مغربی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہتھیاروں کی ایک طاقتور صنعت بنائی ہے اور روس اس ٹیکنالوجی کو کس طرح یوکرین کے شہروں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
ہتھیاروں کے اجزاء کی تحقیقات کرنے والی برطانیہ میں قائم تنظیم کانفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ (سی اے آر) نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی جانب سے روس کو فروخت کیے جانے والے شہدا-136 ڈرون جرمن ٹیکنالوجی پر مبنی انجن سے چلائے جاتے ہیں۔
یوکرین میں برآمد ہونے والے اجزاء کے تفصیلی جائزے کے بعد یہ دریافت ایران کی غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی فوجی ٹیکنالوجی کی نقل کرنے اور اسے بہتر بنانے کی صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
مغربی حکام کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ روس یوکرین کے میدان جنگ میں برآمد ہونے والے مغربی ساختہ ہتھیار اور سازوسامان ایرانیوں کے ساتھ بانٹ سکتا ہے، اب تک، ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے.
تاہم، تہران اور ماسکو کے درمیان تعلقات بہت قریبی ہو گئے ہیں، روس ایرانی ڈرون اور بیلسٹک میزائل چاہتا ہے۔
ایران روسی سرمایہ کاری اور تجارت چاہتا ہے، ایرانی حکام کے مطابق روس گزشتہ ایک سال کے دوران ایران میں سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار بن گیا ہے۔
مغربی حکام کے مطابق روسیوں کے لیے ایرانی ڈرونز زیادہ مہنگے میزائلوں کا متبادل ہیں جن کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ مثال کے طور پر شاہد-186 کی قیمت تقریبا 20,000 ڈالر ہے، جو کہ کالیبر کروز میزائل کی قیمت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔