کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی بنیاد پر پیمائش کی جانے والی سالانہ مہنگائی مارچ میں 35.37 فیصد کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جو اس سے پچھلے مہینے میں 31.55 فیصد تھی۔
ادارہ شماریات کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ تعداد پانچ دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے، کیونکہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہفتہ کے روز جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ماہانہ مہنگائی کی شرح 3.72 فیصد رہی، جبکہ گزشتہ سال کی اوسط افراط زر کی شرح 27.26 فیصد رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس موجود اعداد و شمار میں یہ اب تک کی سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔
بیورو کا کہنا ہے کہ خوراک، کھانا پکانے کے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے انڈیکس میں اضافہ ہوا۔
جنوبی ایشیائی ملک کئی ماہ سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران کے ساتھ معاشی بحران کا شکار ہے، جبکہ بیل آؤٹ فنڈنگ کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
مارچ 2023 میں اربن کنزیومر پرائس انڈیکس مہنگائی سال بہ سال بڑھ کر 33.0 فیصد ہو گیا، جو اس سے پچھلے مہینے 28.8 فیصد اور مارچ 2022 میں 11.9 فیصد تھا، ماہ بہ ماہ یہ بڑھ کر 3.9 فیصد ہوگئی جو گزشتہ ماہ 4.5 فیصد اور مارچ 2022 میں 0.7 فیصد تھی۔
دیہی سی پی آئی افراط زر بھی مارچ 2023 میں سال بہ سال بڑھ کر 38.9 فیصد ہوگئی، جو اس سے پچھلے مہینے 35.6 فیصد اور مارچ 2022 میں 13.9 فیصد تھی۔
ماہانہ بنیادوں پر دیہی سی پی آئی افراط زر بڑھ کر 3.5 فیصد تک پہنچ گیا جو اس سے پچھلے مہینے 4.0 فیصد اور مارچ 2022 میں 1.0 فیصد تھا۔
وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد میں فرق، شرح تبادلہ میں کمی اور پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے مارکیٹ میں پیدا ہونے والی کشمکش کی وجہ سے افراط زر کی شرح بلند سطح پر رہنے کی توقع ہے۔