پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں دفاع کا حق واپس لینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ٹرائل کورٹ کے گزشتہ روز کے حکم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
عمران خان نے استدعا کی ہے کہ ٹرائل کورٹ کا بدھ کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور ان کا دفاع کا حق بحال کیا جائے، انہوں نے درخواست کی سماعت آج کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔
دریں اثنا ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کی تین درخواستوں پر سماعت شروع کی، جن میں سے ایک توشہ خانہ فوجداری کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف، مقدمات کو دوسری عدالت میں منتقل کرنے اور توشہ خانہ فوجداری کیس کے ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق ان اپیلوں کی سماعت کر رہے ہیں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ ان کے موکل کے دفاع میں گواہوں کی فہرست بھی ٹرائل کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے اور گواہوں کو پیش کرنے کے لیے ایک دن کا وقت مانگا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ روزانہ ٹرائل کرنے کی کیا ضرورت ہے، ٹرائل کورٹ کے جج نے آج حتمی دلائل مانگے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ آج جمع کرائی گئی ان کی درخواست بہت اہم ہے اور الزام لگایا کہ جس طرح کے احکامات کا اعلان کیا جا رہا ہے وہ تعصب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ روز جاری ہونے والی ایف آئی اے کی رپورٹ پریشان کن ہے جبکہ وکیل نے یکطرفہ دستاویز قبول کرنے سے انکار کردیا۔
خواجہ حارث نے استدعا کی کہ ٹرائل کورٹ کو کیس کی مزید کارروائی روکنے کا کہا جائے۔
انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے ان کے بارے میں ریمارکس دیے کہ انہوں نے سسٹم تباہ کر دیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نظام کامل نہیں، اس میں کچھ خامیاں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم قواعد میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ روزانہ ٹرائل ہونا چاہیے، وکیل نے کہا کہ کسی بھی فریق کو انڈر ٹرائل کیس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقدمات پر دن رات بحث ہوتی ہے، شام کو ایسے کیسز پر بحث سے رائے عامہ بنانے میں مدد ملتی ہے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جج کا کام یہ سوچنا نہیں ہے کہ عوام کسی فیصلے پر کیا غور کریں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت قانون کے مطابق مناسب طریقے سے درج نہیں کی گئی اور شکایت براہ راست سیشن کورٹ میں دائر نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نجی شکایت مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی جا سکتی تھی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جج پر فیس بک پوسٹس کے الزامات پر ایف آئی اے کی رپورٹ سامنے آ چکی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا رپورٹ کی بنیاد پر جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے اور پی ٹی آئی سربراہ کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں ہونا چاہیے۔
امجد پرویز نے استفسار کیا کہ کیا جج کو انصاف نہیں ملنا چاہیے؟ وکیل نے استفسار کیا کہ جج پر الزام لگانے سے پہلے فیس بک پوسٹس کی فرانزک جانچ کیوں نہیں کی گئی؟
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جج پر اس طرح کے الزامات کے ساتھ حلف نامہ بھی منسلک کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے دونوں وکلاء کو حکم دیا کہ وہ ٹرائل کورٹ کو آگاہ کریں کہ ہائی کورٹ میں دلائل جاری ہیں۔