اسلام آباد: پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دیگر قوانین کے تحت مختلف تھانوں میں درج 12 مقدمات کی تحقیقات کے لیے دو مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے سامنے پیش ہوئے تو ان سے دو درجن سے زائد سوالات پوچھے گئے۔
ایس ایس پی یاسر آفریدی اور ایس پی رخسار مہدی کی سربراہی میں جے آئی ٹی نے خان سے پوچھ گچھ کے لیے 25 سے زائد سوالات کیے۔
بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے سابق وزیراعظم نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں پاکستان اور قومی اداروں سے کوئی نفرت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں پاک فوج، شہداء، غازیوں اور شہدا کی یادگاروں کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں۔
ذرائع نے اس رپورٹر کو بتایا کہ عمران خان نے 9 مئی کے واقعے کی کھلے عام مذمت کی لیکن کہا پی ٹی آئی کارکنوں یا میرا 9 مئی کے واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ یہ ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس واقعے کی ذمہ داری کبھی قبول نہیں کروں گا کیونکہ یہ سازش حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تیار کی ہے جو مجھے اور پارٹی کو قانونی چنگل میں پھنسانے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے جے آئی ٹی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا کہ 9 مئی کے واقعے میں پی ٹی آئی کے کارکن ملوث تھے، کیونکہ میرے پاس اس واقعے سے منسلک سازش کے ثبوت موجود ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ وہ مجھے سیاست سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
عمران خان اپنے خلاف درج 12 مقدمات کی تحقیقات اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی)، اے ٹی اے اور مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت درج فوجداری مقدمات کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے ڈی آئی جی (آپریشنز) کی نگرانی میں تشکیل دی گئی دو جے آئی ٹیز کے سامنے پیش ہوئے۔
سابق وزیراعظم نے 7 مقدمات میں اپنے بیانات ریکارڈ کروائے جن میں سے 4 سی ٹی ڈی پولیس میں اے ٹی اے جرائم کے تحت اور 3 مختلف تھانوں میں درج ہیں۔
تاہم انہوں نے بقیہ پانچ معاملوں میں پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ ان میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔