اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی اٹک جیل میں ٹرائل کے وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سابق وزیراعظم نے اپنے وکیل شیر افضل مروت کے ذریعے وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
خان 5 اگست کو توشہ خانہ معاملے میں سزا سنائے جانے کے بعد سے جیل میں قید ہیں کیونکہ وہ عہدے پر رہتے ہوئے ملنے والے تحائف کو مناسب طریقے سے ظاہر کرنے میں ناکام رہے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کی جانب سے انہیں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے تحت وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے مذکورہ قانون کی دفعہ 5 کے نفاذ کے بعد 18 اگست کو عمران خان کے خلاف آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے تحقیقات کے بعد خفیہ دستاویزات کے غلط استعمال میں دانستہ طور پر ملوث ہونے کا انکشاف ہونے کے بعد سابق وزیراعظم کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
اس کے بعد سرکاری رازداری ایکٹ کے تحت ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی جس نے خان کو 30 اگست تک عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا، بعد میں اس میں 13 ستمبر تک 14 دن کی توسیع کردی۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ عدالت کو اٹک جیل منتقل کرنا غیر قانونی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے دلائل سننے کے بعد وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے نوٹس پر مدعا علیہان سے وضاحت طلب کی تھی۔