بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد قرض کی اگلی قسط پر مذاکرات کے لیے جمعرات کو پاکستان پہنچا۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم 8 ارکان پر مشتمل ہے اور وہ 15 روز تک پاکستان میں قیام کرے گی۔
پاکستان کو امید ہے کہ مذاکرات مکمل ہونے کے بعد اسٹاف لیول معاہدے کے تحت اگلی قسط مل جائے گی۔ دوسری قسط کی مالیت 0.71 ارب ڈالر ہوگی۔
حکومت نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے گیس اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سمیت متعدد اقدامات کیے ہیں۔
اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی آئی ایم ایف کی ضروریات کے مطابق ہے۔
پاکستان نے فنڈ کے ساتھ طے شدہ ہدف سے 66 ارب روپے زیادہ ٹیکس جمع کیے۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو اب بھی اس بات پر تحفظات ہیں کہ پاکستان ایکسچینج ریٹ کو کس طرح سنبھال رہا ہے اور بیرونی فنڈنگ کے حصول پر بھی یقین دہانی کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف مبینہ طور پر مطالبہ کر رہا ہے کہ برآمدات کو کنٹرول کرنے کے لئے 2022 میں جاری کردہ سرکلر واپس لیا جائے۔
طویل مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں پاکستان نے 6.5 ارب ڈالر کا پروگرام مکمل کیے بغیر ہی ترک کر دیا تھا۔