یونانی کوسٹ گارڈز کے بدھ کے روز تارکین وطن کے بحری جہاز کے حادثے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں، جس میں سیکڑوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
برطانوی خابرو ادارے بی بی سے نے دعویٰ کیا ہے کہ علاقے میں دیگر بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ کشتی الٹنے سے پہلے کم از کم سات گھنٹے تک حرکت نہیں کر رہی تھی۔
کوسٹ گارڈ کا اب بھی دعویٰ ہے کہ ان گھنٹوں کے دوران کشتی اٹلی کے راستے پر تھی اور اسے بچاؤ کی ضرورت نہیں تھی۔
یونانی حکام نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کم از کم 78 افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن 500 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
اقوام متحدہ نے یونان کی جانب سے اس آفت سے نمٹنے کے طریقہ کار کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر بچاؤ کی کوشش شروع کرنے کے لیے پہلے مزید اقدامات کیے جانے چاہیے تھے۔
یونانی حکام کا کہنا ہے کہ کشتی میں سوار افراد کا کہنا ہے کہ وہ مدد نہیں چاہتے اور کشتی ڈوبنے سے قبل تک انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
ان کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گھنٹوں کی سرگرمی ایک چھوٹے، مخصوص علاقے پر مرکوز تھی جہاں بعد میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی تھی، جس سے سرکاری دعوے پر شک پیدا ہوتا ہے کہ اسے اس کی نیویگیشن میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
کشتی میں کوئی ٹریکر نہیں تھا لہذا نقشے پر نہیں دکھایا گیا ہے، نہ ہی کوسٹ گارڈ اور فوجی جہاز ہیں جنہیں اپنے مقام کا اشتراک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔