یونیورسٹی آف کیمبرج میں قائم ویلکم۔ ایم آر سی اِنسٹیٹیوٹ آف میٹابولک سائنس کے سائنس دان ایک مصنوعی پتہ بنانے میں کامیاب ہوگئے جو گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
یہ ڈیوائس کیم اے پی ایس ایچ ایکس نامی ایپ (جو سائنس دانوں کی ٹیم کی جانب سے بنائی گئی ہے) کا استعمال کرتے ہوئے جسم میں موجود اضافی گلُوکوز کی نگرانی کرتی ہے۔
نیچر میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ آلے کی پہلی آزمائش ٹائپ 2 میں مبتلا افراد (جن کو ڈائیلاسز کی ضرورت نہیں تھی) کی بڑی تعداد پر کی گئی۔
ٹائپ 1 کے مریضوں پر استعمال کیے گئے آلے کے بر عکس یہ نئی ڈیوائس مکمل طور پر بند چکر کے نظام پر مشتمل ہے جس کے سبب انسولین کی مطابقت کے لیے آلے کو بار بار یہ نہیں بتانا پڑتا کہ آپ کچھ کھانے جا رہے ہیں بلکہ یہ ورژن خودبخود یہ معاملات دیکھ لیتا ہے۔
محققین نے کیمبرج یونیورسٹی ہاسپٹلز سے جڑے ایڈنبروک ہاسپٹل سے 26 مریضوں کا انتخاب کیا اور ان مریضوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا۔
ایک گروپ پر آٹھ ہفتوں تک مصنوعی پتے کو آزمایا گیا اور پھر روایتی طریقہ کار یعنی ایک دن میں متعدد انسولین کے انجیکشن پر ڈال دیا گیا۔ جبکہ دوسرے گروپ کو اس روایتی طریقہ کار سے گزارا گیا جس کو آٹھ ہفتوں بعد مصنوعی پتے سے بدل دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سردیوں میں ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں؟ ماہرین نے وجہ ڈھونڈ لی
ٹیم نے مصنوعی پتے کی تاثیر کو دو طریقوں سے جاننے کی کوشش کی، پہلے طریقے میں یہ دیکھا گیا کہ مریض اپنا کتنا وقت متعین کردہ گلوکوز کی مقدار یعنی 3.9 سے 10.0 ملی مول فی لیٹر کےدرمیان سے کم میں گزارتے ہیں۔
اوسطاً، مصنوعی پتہ استعمال کرنے والوں نے اپنا دو تہائی (66 فی صد) وقت اس مقدار سے کم گلوکوز کے ساتھ گزارا جو کہ دوسرے گروپ (جن کی شرح 32 فی صد تھی) کی نسبت دُگنا تھا۔
دوسرے طریقے میں دیکھا گیا کہ مریض اپنا کتنا وقت گلوکوز کی 10.0 ملی مول فی لیٹر سے زیادہ مقدار کے ساتھ گزارتے ہیں۔
اوسطاً روایتی طریقہ کاراستعمال کرنے والوں نے اپنا دو تہائی (67 فی صد) وقت اس مقدار سے زیادہ گلوکوز کے ساتھ گزارا جبکہ مصنوعی پتہ استعمال کرنے والے گروپ نے اس کا نصف یعنی33 فی صد وقت اس مقدار سے کم میں گزارا تھا۔