وزیراعظم شہباز شریف نے اضافی ٹیکس عائد کرکے 150 سے 200 ارب روپے جمع کرنے، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے اور منی بجٹ لانے سمیت کئی سخت فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے اصولی منظوری دیدی ہے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں تعطل کو ختم کیا جا سکے۔
بدھ کو وزیراعظم کی زیر صدارت آن لائن ایک اجلاس منعقد ہوا جو ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا جس میں حکومت کی جانب سے کئی اہم فیصلے کیے گئے۔
ذرائع نے ایک قومی جریدےسے بات چیت میں توقع ظاہر کی ہے کہ یہ اجلاس جمعرات کو دوبارہ منعقد ہوگا جس میں مزید اہم فیصلے کیے جائیں گے۔
اس نمائندے نے وزیر پیٹرولیم مصدق ملک سے بات چیت میں گیس کی قیمتیں بڑھانے پر سوال کیا تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ذرائع کے مطابق حکومت کو رواں مالی سال کیلئے بجلی کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی، گیس کے شعبے میں موجودہ ٹیرف 650 فی ایم ایم بی ٹی یو کو بڑھا کر اوسطاً 1100 ایم ایم بی ٹی یو کرنا ہوگا۔
فی الحال ملک کو 1640 ارب روپے کے گردشی قرضوں کا سامنا ہے جس میں حکومت کو این این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کے بڑے ڈیویڈنڈ کے ذریعے 800 سے 850 ارب روپے ریکور کرنا ہوں گے، حکومت پہلے مرحلے میں بجلی کے ٹیرف میں ساڑھے 4 روپے فی یونٹ جب کہ دوسرے مرحلے میں 4 روپے فی یونٹ رواں مالی سال کیلئے بڑھائے گی۔
اس کے علاوہ، میٹھے مشروبات اور سگریٹ پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی بڑھانے کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی میں اضافے پر بھی غور کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کے حوالے سے سختی کے ساتھ مخالفت کر چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس سے شدید مہنگائی آئے گی۔