قومی اسمبلی نے فنانس بل 2023 کثرت رائے سے منظور کرلیا، فنانس بل کی منظوری کے بعد سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری کا عمل جاری رہا۔
اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بل کی مختلف شقوں میں ترامیم پیش کیں۔
فنانس بل 2023 میں کل 9 ترامیم پیش کی گئیں اور ان سب کی منظوری دی گئی، ان میں سے آٹھ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اور صرف ایک اپوزیشن قانون ساز نے پیش کیا۔
اسحاق ڈار نے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم بھی پیش کی جسے ایوان زیریں نے منظور کرلیا۔
ترمیم کے مطابق پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کردی گئی ہے، اب وفاقی حکومت کے پاس 60 روپے فی لیٹر تک لیوی لگانے کا اختیار ہوگا۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ یہ بل سود پر مبنی ہے اور اس کی رائے کے لئے اسے اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کو بھیجا جانا چاہئے، تاہم اس بل کو سی آئی آئی کو بھیجنے کی قرارداد اکثریت سے مسترد کردی گئی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے گئے فنانس بل کی شق میں منظور شدہ ترمیم کے تحت حکومت نے 3200 ارب روپے مالیت کے 62 ہزار زیر التوا ٹیکس مسائل کے حل کے لیے 3 رکنی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایف بی آر کمیٹی کے کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کر سکے گا جبکہ متاثرہ شخص کو عدالت جانے کی سہولت حاصل ہوگی۔
مولانا چترالی کی تجویز کردہ ترمیم بغیر کسی مخالفت کے منظور کر لی گئی۔
ترمیم کے تحت قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو موجودہ 1300 سی سی اور 1600 سی سی کی بجائے 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔
قومی اسمبلی نے مالی سال 2021-2022 اور 2022-2023 کے لیے وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈ پر وصول کیے جانے والے اخراجات کے حوالے سے ریگولر اور ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹس پر بھی بحث اور ووٹنگ کی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کردہ مطالبات منظور کیے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پنشن کا مسئلہ صدیوں سے ہے اور اسے برسوں پہلے ہی حل کر لینا چاہیے تھا۔
قومی اسمبلی کے فلور پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک عام اصول ہے کہ ایک پنشن کا حقدار ہے اور سب سے زیادہ پنشن ملتی ہے۔
لیکن یہاں لوگ آرمی چیف، چیف ایگزیکٹیو، صدر رہے ہیں اور تمام اداروں سے پنشن وصول کر رہے ہیں۔ یہ اس غریب ملک پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔