اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز کی فراہمی سے متعلق سمری کی ایک بار پھر منظوری دے دی اور معاملہ قومی اسمبلی کو بھجوا دیا۔
سپریم کورٹ نے 14 اپریل کو مرکزی بینک کو پنجاب میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے اور پیر (17 اپریل) تک وزارت خزانہ کو اس حوالے سے ‘مناسب مراسلہ’ بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا خصوصی اجلاس ہوا، جس میں معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو 4 اپریل کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی اور مرکزی بینک کو فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کی۔
یہ ہدایات اس وقت جاری کی گئیں جب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ پیش کی، جس میں بتایا گیا تھا کہ وزارت خزانہ 4 اپریل کو تین رکنی بنچ کے حکم کے مطابق فنڈز جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اجلاس کے آغاز پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی قائم مقام گورنر سیما کامل نے قومی اسمبلی کے پینل کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے 21 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں تاہم اس کے پاس براہ راست فنڈز جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت خزانہ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس کے پاس 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے کافی فنڈز نہیں ہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ انتخابات پر دو بار خرچ کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے، سپریم کورٹ نے مرکزی بینک کو فنڈز کا انتظام کرنے کی ہدایت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری فنڈز کے ٹرسٹی عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی قومی اسمبلی کی جانب سے طلب کیا گیا تھا۔
تاہم ذرائع کے مطابق وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما برجیس طاہر نے مزید کہا کہ اگر مرکزی بینک الیکشن کمیشن کو براہ راست فنڈز جاری کرتا ہے تو یہ قانون کے خلاف ہوگا۔