اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 3 رکنی بینچ کو رپورٹ جمع کرادی، جس میں کہا گیا ہے کہ 14 مئی کو ہونے والے پنجاب اسمبلی انتخابات کے لیے درکار 21 ارب روپے ابھی تک وصول نہیں ہوئے۔
گزشتہ ہفتے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے 17 اپریل (پیر) تک فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اسی بنچ نے اس سے قبل اپنے حکم میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی نئی تاریخ 14 مئی مقرر کی تھی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ 10 اپریل سے بڑھا کر 8 اکتوبر کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے 10 اپریل تک 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم پارلیمنٹ میں طویل بحث کے بعد مخلوط حکومت نے اس حکم پر عمل درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اسے وزارت سے مطلوبہ فنڈز نہیں ملے ہیں جس کے بعد تین رکنی بنچ نے مرکزی بینک کو براہ راست فنڈز جاری کرنے کی ہدایت دی۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا مذکورہ بالا تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا خیال ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کے آئینی مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فوری طور پر جاری کرنے میں مالی یا طریقہ کار یا آئین کے تحت متعلقہ اجازت نامے کے حوالے سے کوئی مشکل یا رکاوٹ نہیں ہے۔
عدالت نے مرکزی بینک کو پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے مختص کرنے اور جاری کرنے کا حکم دیا جو اس کے کنٹرول اور انتظام میں ہے۔
سپریم کورٹ نے وزارت خزانہ سے تعمیلی رپورٹ بھی طلب کرلی، جس میں اے جی پی آر (اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو) کے حوالے سے تصدیق بھی شامل ہوگی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ منگل تک رپورٹ پیش کرے کہ 21 ارب روپے مذکورہ بالا شرائط کے مطابق دستیاب ہو چکے ہیں۔
حکم نامے کی تعمیل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے آج ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ اسے مرکزی بینک سے فنڈز موصول نہیں ہوئے۔
اس کے علاوہ مرکزی بینک نے بھی اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں ان تمام وجوہات پر روشنی ڈالی گئی جو ان کی اس دلیل کی تائید کرتی ہیں کہ وہ فنڈز مختص کرسکتے ہیں، تاہم، براہ راست فنڈز جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
وزارت خزانہ کے عہدیداروں نے رجسٹرار آفس کو بھی رپورٹ پیش کی، جس میں ہدایات جاری ہونے کے بعد ہونے والی پیش رفت کی تفصیلات شامل تھیں۔
اس میں فنڈز جاری کرنے کے تمام قانونی پہلوؤں اور کابینہ اور پارلیمنٹ کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایک روز قبل قومی اسمبلی نے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کی جانب سے سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن کے باوجود انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری نہ کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔