وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت منی بجٹ کے ذریعے 170 ارب روپے کے ٹیکس عائد کرے گی۔
جمعرات کو پاکستان اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان 10 روزہ طویل مذاکرات ختم ہوگئے اور دونوں فریق عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے، فریقین نے کارروائی اور پیشگی اقدامات پر اتفاق کیا۔
سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کچھ نکات پر بات چیت باقی ہے، ان نکات پر فیصلہ واشنگٹن سے کیا جائے گا۔
جمعہ کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ جمعرات کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا آخری دور کامیاب رہا۔
اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور حکمران اتحاد معاہدے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے اجلاس کے دوران پیٹرولیم، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور توانائی کے شعبوں نے اپنے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کیا اور باہمی معاہدے پر پہنچے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اجلاس میں ہر چیز باہمی طور پر طے کی گئی اور آئی ایم ایف سے کہا کہ وہ اقتصادی اور مالیاتی پالیسی کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کی دستاویز فراہم کرے جو انہیں جمعہ کی صبح موصول ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آگے بڑھنے کے لئے پیر کو ایک ورچوئل اجلاس شیڈول ہے کیونکہ حکومت اور معاشی ٹیم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے کام کر رہی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ 170 ارب روپے کے مالیاتی ٹیکسوں کا نفاذ اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں گی، تاہم انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ کچھ اصلاحات پاکستان کے حق میں ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اپنی توجہ سبسڈیز کو کم کرنے کی طرف مبذول کر رہی ہے، جن کو درست طور پر ہدف نہیں بنایا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کا وعدہ پورا کر دیا گیا ہے، پیٹرول پر 50 روپے اور ڈیزل پر 40 روپے کی حد مقرر کی گئی ہے، جبکہ بقیہ 10 روپے 5 روپے بنا کر ایڈجسٹ کی جائے گی، تاہم بینظیر انکم سپورٹ کی مد میں حکومت نے رقم 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ پٹرول پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں ہوگا، جہاں تک جی ایس ٹی کا تعلق ہے تو یہ 170 ارب کے ٹیکسوں میں شامل ہے۔