بندرگاہ سے دالوں کے کنسائمنٹس ریلیز ہونا شروع ہوگئے ہیں جس سے ماہ رمضان میں دالوں کا ممکنہ بحران کا خطرہ ٹل گیا تاہم دالوں کی بڑھی ہوئی قیمتیں کم نہ ہوسکیں۔
ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالرؤف ابراہیم نےایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ دالوں کے روکے گئے 7000کنٹینرز میں سے 2000 کنٹینرز ریلیز کر دیے گئے جبکہ 5000 کنٹینرز ابھی باقی ہیں، اسکے برعکس چند روز قبل بندرگاہ پر لنگر انداز تین بحری جہازوں کے ذریعے 50ہزار ٹن ’’بلک‘‘ کی صورت میں پہنچنے والی دالوں میں سے 20فیصد فوری ریلیز کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ بلک کے مقابلے میں کنٹینرز میں درآمد ہونے والے دالوں کے پہلے سے رکے ہوئے کنسائمنٹس تیز رفتاری سے کیوں ریلیز نہیں کیے جا رہے ہیں حالانکہ بلک کی نسبت کنٹینرز میں موجود دالوں پر غیر ملکی شپنگ کمپنیوں کو فی کنٹینر یومیہ 100ڈالر ڈیٹینشن چارجز کی ادائیگیوں کا بوجھ ملک اور امپورٹرز پر بڑھتا جا رہا ہے لہٰذا وفاقی حکومت اور بندرگاہ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ رکے ہوئے دالوں کے کنٹینرز کو ترجیحی بنیادوں پر کلیئرنس کرنے کے احکامات جاری کریں کیونکہ غیر ملکی شپنگ کمپنیاں 7کروڑ ڈالر مالیت کے رکے ہوئے دالوں کے کنٹینرز پر 3کروڑ ڈالر کا ڈیٹینش عائد کرچکی ہیں۔
چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ کنٹینرز میں رکے ہوئے دالوں کے کنسائمنٹس کو ریلیز کرنے میں تاخیر سے لاگت خطرناک حد تک بڑھ جائے گی اور دالوں کی قیمتوں میں مزید اضافے سے نہ صرف عام صارفین متاثر ہوں گے بلکہ مہنگائی کی شرح بھی خطرناک حد تک بڑھ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر بندرگاہ و جہاز رانی فیصل سبزواری کے دو ہفتے قبل اعلان کرنے کے باوجود تاحال دالوں کے رکے ہوئے کنٹینرز پر ڈیمریجز ختم کرنے کے نوٹیفیکیشن تک جاری نہ کروا سکے ہیں۔
چیئرمین ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ پاکستان پہنچنے والی دالوں کے تمام کنٹینرز و بلک کارگو ریلیز ہونے سے ملک بھر میں گزشتہ چند ماہ سے فی کلو دال پر 100 تا 150روپے بڑھے ہوئے تھے تاہم اب قیمتیں دوبارہ معمول پر آجائیں گی۔