چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ (ریویو آف جسٹسز اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے 14 مئی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق خدشات دور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے حال ہی میں نافذ کیے گئے سپریم کورٹ (نظرثانی فیصلے اور احکامات) ایکٹ 2023 کے خلاف درخواستوں کو الیکشن کمیشن کی درخواست کے ساتھ ملا دیا تھا، جس میں سپریم کورٹ سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو کرانے کے 4 اپریل کے حکم پر نظر ثانی کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عثمان اعوان نے دلائل پیش کیے اور آئندہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے مہلت بھی طلب کی۔
اپنے دلائل کے دوران اے جی پی نے اس بات پر زور دیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف انٹرا کورٹ سمیت مختلف فورمز اور بالآخر سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت زیر سماعت مقدمات ابتدائی عدالتی فورم کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس طرح کے فیصلوں کے خلاف کسی بھی اپیل کی سماعت 5 رکنی بینچ کرے گا۔
مزید برآں، انہوں نے نشاندہی کی کہ مذکورہ 5 رکنی بینچ میں وہ تین جج شامل ہوں گے جنہوں نے پہلے فیصلہ دیا تھا۔
چیف جسٹس نے مداخلت کا ارادہ ظاہر کیا لیکن جسٹس اعجاز الحسن نے بابر اعوان پر زور دیا کہ وہ اپنے دلائل جاری رکھیں۔
اٹارنی جنرل بابر اعوان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت آرڈر 26 کی پابند نہیں اور آرٹیکل 188 میں نظر ثانی کے دائرہ کار پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
2002 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے کیوریٹیو ریویو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بابر اعوان نے نشاندہی کی کہ بھارتی عدالت نے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے دوسرے نظرثانی کی اجازت دی تھی۔