اسلام آباد: نگران وزیراعظم کیلئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور بلوچستان سے آزاد رکن اسمبلی اسلم بھوتانی سمیت دیگر کے نام زیر غور ہیں۔
ذرائع کے مطابق سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد بھی ان میں شامل ہیں، جن پر آج اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اتحادی جماعتوں کی جانب سے نگران سیٹ اپ کے حوالے سے تبادلہ خیال کے لیے زوم اجلاس جاری ہے، کیونکہ حکومت اپنی مدت کے قریب ہے۔
اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر سینئر رہنما شریک ہوں گے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے رہنما بیک ٹو بیک اجلاس منعقد کر رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
جمعرات کو ایک عشائیہ کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادیوں کے سامنے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی اپنی مدت سے تین دن قبل 9 اگست کو قبل از وقت تحلیل ہو جائے گی۔
ان قوانین کے تحت اگر کوئی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو جاتی ہے تو مقننہ کے انتخابات 60 دن کے اندر کرائے جاتے ہیں لیکن اگر اسے قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جاتے ہیں۔
گزشتہ رات عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ سال 11 اپریل کو مخلوط حکومت کے قیام کے بعد انہیں معاشی مشکلات، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پیچیدہ مذاکرات، تباہ کن سیلاب، افراط زر اور سیاسی افراتفری سمیت غیر معمولی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ عمران نیازی اور ان کے گینگ نے بے بنیاد الزامات، فسادات اور لانگ مارچ کے ذریعے سیاسی افراتفری پیدا کی۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک سیاسی استحکام کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا، ملک کی سیاست بے بنیاد الزامات اور گالیوں کے کلچر سے آلودہ ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے چیلنج نے ان کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں کیونکہ آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہونے سے معیشت پر بوجھ پڑتا، زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑتا، روپے کی قدر میں کمی ہوتی اور بے روزگاری پیدا ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے پیرس میں آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ اہم بات چیت کی جس کے نتیجے میں بالآخر معاہدہ کامیاب ہوا۔
انہوں نے اتحادی جماعتوں اور ان کی پارٹی قیادت بشمول نواز شریف، آصف زرداری، فضل الرحمان اور دیگر کی رہنمائی اور حمایت اور قومی اسمبلی میں ان پر اعتماد کا اظہار کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے پارلیمنٹ کی کارروائی خوش اسلوبی سے چلانے پر اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی بھی تعریف کی۔