اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 170 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے مختلف ٹیکس تجاویز کی منظوری دے جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم وقت کے مزید ضیاع سے بچنے کے لئے آرڈیننس کے اجراء کا راستہ اختیار کریں گے، کابینہ کی منظوری کے بعد صدارتی آرڈیننس رواں ہفتے کے اندر جاری کیا جائے گا۔
واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے قرض دہندہ نے تجویز دی ہے کہ ون آف کا راستہ ترک کرکے مستقل ٹیکس اقدامات کا راستہ اپنایا جائے۔
تاہم حکومت نے آئی ایم ایف کی مزاحمت کی وجہ سے درآمدات پر فلڈ لیوی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کو ایک فیصد بڑھانے کی تجویز پیش کی۔
آئی ایم ایف نے پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی معیاری شرح عائد کرنے کا نسخہ دیا تھا، لیکن اسلام آباد نے اس کی سختی سے مخالفت کی تھی۔
تاہم ہائی اسپیڈ ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے فی لیٹر کردی گئی ہے، پیٹرولیم لیوی کی حد میں مزید اضافے کے امکان سے فی الحال انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان اب بھی اس کی مخالفت کر رہا ہے۔
وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ حکام نے مالی اور اقتصادی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) پر ایک ورچوئل میٹنگ کے ذریعے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے ساتھ اپنے تفصیلی تبصرے شیئر کیے اور فنڈ سے مرحلہ وار تمام محاذوں پر ایڈجسٹمنٹ کرنے کے لئے نقطہ نظر اپنانے کے لئے کہا ہے۔
تاہم آئی ایم ایف نے واضح لہجے میں آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے بقیہ عرصے میں اضافی ٹیکسوں کی مد میں 170 ارب روپے حاصل کرنے کے لیے مستقل ٹیکس اقدامات کرنے ہوں گے۔
اگرچہ حکومت اب بھی آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی آخری کوشش کر رہی ہے کہ وہ ٹیکس کے کچھ اقدامات کی اجازت دے، لیکن آئی ایم ایف مستقل ٹیکس اقدامات چاہتا ہے، لہذا حکومت کو بڑے پیمانے پر ٹیکس عائد کرنا پڑے گا جس کا سالانہ اثر 500 ارب روپے ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر 450 سے 500 ارب روپے کے ٹیکسز کے نفاذ سے حکومت رواں مالی سال کی بقیہ مدت میں 30 جون 2023 تک 170 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرسکتی ہے۔
توقع ہے کہ دونوں فریق رواں ہفتے کے آخر تک عملے کی سطح پر معاہدہ کر لیں گے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ پیش کیا جائے اور پھر اسے آئینی ذمہ داریوں کے تحت مقررہ مدت کے اندر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔
منی بجٹ پیش کرنے کے لئے آرڈیننس کے اجراء کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر ایک عہدیدار نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک بل پیش کرنے یا آرڈیننس جاری کرنے کے بارے میں ایک ہفتے کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔
تاہم ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اگلے 15 دن انتظار کرنے کی آسائش نہیں ہے کیونکہ مستقل اقدامات کے ذریعے ہر روز 170 ارب روپے کے مطلوبہ ٹیکس محصولات جمع کرنے کی گنتی کی جارہی ہے۔