وفاقی حکومت نے پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے جاری سمن غیر موثر ہو چکے ہیں۔ حکومت نے عدالت سے درخواستوں کو نمٹانے کی بھی درخواست کی ہے۔
جسٹس بابر ستار کی سربراہی میں آڈیو لیکس کیس کی سماعت ہوئی جس میں سابق خاتون اول بشریٰ بیگم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے دونوں درخواستوں کو یکجا کیا اور ان پر ایک ساتھ سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ان کی رائے میں پارلیمانی کمیٹی کو آڈیو لیکس کا معاملہ نہیں لینا چاہیے تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کی جانب سے آڈیو لیک کا تعلق قومی اسمبلی سے نہیں ہے لہٰذا کمیٹی کو نوٹس نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔
تاہم جج نے کہا کہ ابتدائی سوال کا جواب یہ ہے کہ کیا الیکٹرانک نگرانی کی اجازت دی جا سکتی ہے اور کون ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آڈیو ریکارڈ کی گئی ہیں؟
سینیٹر رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمانی کمیٹیوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے تمام نوٹسز اسمبلی تحلیل ہونے پر غیر موثر ہو جاتے ہیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ اس اصول کے مطابق ثاقب کو جاری کیے گئے سمن اب موثر نہیں رہے۔
تاہم جسٹس ستار نے کہا کہ ملک میں کہیں بھی آڈیو ریکارڈ کرنے کے لیے قانونی فریم ورک ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ چیمبرز اور دفاتر میں آڈیو ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جج نے مزید کہا کہ وہ مدعا علیہان کو وقت دیں گے لیکن آڈیو ریکارڈ کرنے کے اداروں کے دائرہ اختیار کے بارے میں جواب جمع کرانا ہوگا۔
تاہم رضا ربانی نے کہا کہ اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو مدنظر رکھا جانا چاہیے اور عدالت کو اس معاملے کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔
جس کے بعد جسٹس فاروق ستار نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے حکومت کو جواب جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔