پارٹی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کی جانب سے گزشتہ رات ٹوئٹر پر دو صفحات پر مشتمل ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں سابق سیکریٹری جنرل کے انٹرویو کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی سربراہ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اسد عمر کے خیالات میں ابہام اور الجھن واضح ہے، اسد عمر کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے چیئرمین کی حکمت عملی پر اختلافات کی وجہ سے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیا، حقیقت کے منافی نظر آتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اسد عمر چیئرمین یا پارٹی کے فیصلوں سے متفق نہیں تھے اور ان کے ساتھ چلنا مناسب نہیں سمجھتے تھے تو انہیں (پی ٹی آئی سے) علیحدگی اختیار کرنی چاہیے تھی۔
بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ ان کے ذاتی مفادات اس میں چھپے ہوسکتے ہیں، لیکن پارٹی کے مفاد میں نہیں۔
مزید برآں، بیان میں اسد عمر کے اس دعوے سے بھی اختلاف کیا گیا کہ پارٹی نے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا، ااسد عمر، سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے، ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ قومی امور پر تبادلہ خیال کرنے کی متعدد کوششوں سے بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسد عمر خود یہ موقف اختیار کرتے تھے کہ جب بھی انہوں نے ان جماعتوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے این آر او کے حصول کے علاوہ کسی ایجنڈے پر بات نہیں کی۔
دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے بے نتیجہ خاتمے کی وجہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ دوسرے فریق کی شکست کے خوف سے الیکشن لڑنے میں ہچکچاہٹ ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے بڑی لچک کا مظاہرہ کیا ہے، لہٰذا اسد عمر اپنے ناقابل دفاع فیصلے کا جواز پیش کر سکتے ہیں لیکن حقائق کو نظر انداز کرنے سے گریز کریں۔
اگر اسد عمر نے اصولی موقف اختیار کیا ہوتا اور مشکل وقت آنے سے پہلے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہوتا تو شاید ان کے الفاظ میں زیادہ وزن ہوتا۔
پیر کو ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ان کی جماعت کا پی ڈی ایم کے ساتھ مذاکرات سے انکار ایک ‘بڑی غلطی’ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی حقیقت ہے، جس نے ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ حاصل کیے، جبکہ پی ڈی ایم 2 کروڑ 25 لاکھ ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں پہنچی۔
9 مئی کے فسادات کے بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے مستعفی ہونے والے پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ کسی ادارے کی کچھ شخصیات کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صرف اس ادارے بلکہ پوری قوم کو مورد الزام ٹھہرانے کے مترادف ہے۔
سابق سیکرٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف اسد عمر کے کاشف عباسی کو آج رات دیے گئے انٹرویو پر سیکرٹری اطلاعات تحریک انصاف رؤوف حسن کا ردعمل pic.twitter.com/cUQzUHgIxq
— PTI (@PTIofficial) June 19, 2023
انہوں نے کہا، 9 مئی ایک ویک اپ کال تھی، اور ہر ایک کو دو قدم پیچھے ہٹنا ہوگا، تاہم اسد عمر نے انٹرویو کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے موجودہ لائحہ عمل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی موجودہ حکمت عملی سے متفق نہیں ہوں، تاہم میرا پی ٹی آئی کے علاوہ کسی اور پارٹی میں سیاست کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ ووٹ بینک صرف عمران خان کا ہے نہ کہ کسی اور پارٹی لیڈر کا، اگر عمران خان خود مائنس ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پارٹی غائب ہو سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے پی ٹی آئی سربراہ کا ساتھ دینے والوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جو لوگ عمران خان کو بتا رہے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں وہ بہت اچھا ہے اور انہیں اپنے موقف پر قائم رہنا ہے، درحقیقت پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے کوئی نیک نیت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ فیصلہ سازی کے دوران پارٹی کی سینئر سیاسی قیادت کو نظر انداز کیا گیا۔