اسلام آباد (نیوز ڈیسک): قومی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزامات کے تحت جوڈیشل ریمانڈ پر موجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ائی) کے رہنما فواد چوہدری کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی گئی۔ 25 جنوری کو فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا، 2 روز قبل اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ان کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی پراسیکیوشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
فوادچوہدری کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی، ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے پی ٹی آئی رہنما کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت کی۔
فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان، فیصل چوہدری اور علی بخاری عدالت کے روبرو پیش ہوئے، تفتیشی افسر کی جانب سے کیس ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
دوران سماعت پراسیکیوٹر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وکیل بابراعوان نے درخواستِ ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن عمرحمید مدعی مقدمہ ہے، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں، الیکشن کمیشن کے سیکٹری انفرادی طور پر خود ریاست نہیں ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میرا سوال ہے کیا الیکشن کمیشن حکومت ہے؟ کسی کو کہنا کہ تمہارے خلاف کارروائی کروں گا کامطلب دھمکی دینا نہیں، بغاوت کی دفہ انفرادی طور پر کچھ نہیں، بغاوت کی دفہ کو سیاسی رنگ دیاگیاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سعدحسن بھی عدالت میں پیش ہوئے، لگانے کو تو مقدمے میں قتل کی دفہ بھی لگا سکتےتھے، کیس ثابت ہونے پر ان دفعات پر 10سے 15 سال کی سزا ہو سکتی ہے، ان دفعات پر کم سے کم تین سال سزا دی جا سکتی ہے،فوادچوہدری کو جھوٹے کیس میں نامزد کیاگیا۔
بابر اعوان نے استدلال کیا کہ فواد چوہدری پر لگی دفعات پر عدالتوں کے کم فیصلے موجود ہیں،آج کل جو کیسز بن رہے اس کے بعد چند عدالتوں کے فیصلے آئے ہیں، اس موقع پر جج کی جانب سے وکیل بابراعوان کو مقدمہ پڑھنے کی ہدایت کی گئی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ فوادچوہدری نے مقدمے کے ایک مخصوص حصے تک تنقید کی، جج نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کی جانب سےکہنا کہ گھروں سے چھوڑ کر آنے کا کیا مطلب ہے؟ فواد چوہدری سینیئر وکیل اور پارلیمنٹیرین ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ ماضی میں خاتون کو ٹریکٹر اور ٹرالی کہہ کر بھی مخاطب کیاگیا، عداکت نے استفسار کیا کہ خاندانوں کے حوالے سے بات کرنے کا کیا مطلب ہے، پاکستان میں لٹریسی ریٹ آپ کو پتا ہے کیا ہے اور سیاسی شخصیت کا ایسی بات کرنے کا کیا مطلب ہے۔
ایڈیشل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے کہا کہ اس سے قبل ہماری ایک کولیگ کے بارے میں بھی کہا گیا، اتنا آگے جانے کا کیا مطلب ہے، بعد میں اس میں معافی مانگی گئی، بابر اعوان نے کہا کہ اس معاملہ کو بھی میں نے جا کے حل کروایا تھا۔
پراسیکوٹر نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی شخصیت کا کباڑا کرنا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کے ملازم کو منشی بنا دیا، جج نے استفسار کیا کہ کیا کسی وکیل نے منشی کہنے پر اعتراض اٹھایا؟ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جارہاہے؟
پراسیکیوٹر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگٹ کرکے منشی لفظ استعمال کیاگیا،جج نے کہا کہ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جارہاہے؟
پراسیکیوٹر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگیٹ کرکے منشی لفظ استعمال کیاگیا، پولیس کی جانب سے ڈاکومنٹری شواہد اکھٹے کیے گئے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اپنے بیان سے تو فواد چوہدری انکاری نہیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ فواد چوہدری نے پروگرام میں کہا اس ملک میں جو بغاوت ہے وہ تو فرض ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملک میں استحکام نہیں، اس دوران عوام کو اکسانا ٹھیک نہیں، صرف الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ نہیں کیاجارہا، رجیم چینج کے بعد افواجِ پاکستان اور سیاسی شخصیات کو ٹارگیٹ کیاجارہا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ قانون کالونیل دور میں بنایا گیا تھا، کچھ دفعات واپس کالونیل دور میں لےجاتی ہیں، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 اُن دفعات میں سے ایک ہے، اگر ایک اثرورسوخ رکھنے والا شخص عوام کو اکسائے تو صورتحال مختلف ہوگی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کی جب کہ وکیل بابراعوان نےجواب الجواب میں کہا کہ تفتیش کے دوران پراسیکیوشن نے اعظم سواتی کے ساتھ جو کیا وہ سامنے ہے، مورالیٹی کی بات کرتےہیں، اعظم سواتی کو اس کی اہلیہ کے ساتھ ویڈیو بھیجی۔
انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن اب نیا مدعی ڈھونڈ رہی تاکہ کسی نئے ادارے کی توہین ہو، جس عدالت نے الیکشن کروانے کی ہدایت کی، اسی انتخابات سے الیکشن کمیشن بھاگا، لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں لگےتھے اور چیف الیکشن کمشنر بھاگ گئے۔
بابراعوان نے استدلال کیا کہ اگر بیان پر جاناہےتو پراسیکیوشن کو تو تین سال چاہیے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فواد چوہدری کی درخواستِ ضمانت منظور کرلی، پی ٹی آئی رہنما کی درخواست ضمانت 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی گئی۔