اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق کیس میں گرفتار سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران پولیس نے علی وزیر اور ایمان مزاری کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے روبرو پیش کیا۔
سماعت کے دوران ایمان کے وکیل نے زور دے کر کہا کہ پہلی ایف آئی آر میں ناقابل ضمانت دفعات شامل ہیں، شیریں مزاری خود ایک وکیل ہیں اور انہوں نے ماضی میں بھی تحقیقات میں تعاون کیا تھا جس طرح وہ مستقبل میں بھی کرتی رہیں گی۔
امام مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقامی عدالت کی جانب سے گزشتہ روز ان کے موکل کو ریمانڈ پر دینے کے باوجود کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شیریں مزاری کا فون اور لیپ ٹاپ پہلے ہی ضبط کیا جاچکا ہے اور ایک ہی واقعے پر دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ شیریں مزاری کے خلاف اس سے قبل بھی اسی طرح کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا لیکن اس سال کے اوائل میں اپنے بیان پر واضح طور پر معافی مانگنے کے بعد الزامات واپس لے لیے گئے تھے، انہوں نے دلیل دی کہ اس نے ایک بار پھر وہی جرم دہرایا ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ریمانڈ کی درخواست منظور کی جائے کیونکہ تحقیقات ابھی جاری ہیں اور فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ اور وائس میچنگ جیسے کئی ٹیسٹ مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔
علی وزیر نے روسٹرم لے کر عدالت کو بتایا کہ نگران حکومت نے پی ٹی ایم کی قیادت سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا نہ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ ہمیں ریلی نکالنی چاہیے لیکن ترنول میں ریلی نکالیں اس لیے ہم وہاں گئے اور وہاں ایک میٹنگ کی، جیسے ہی اجلاس ختم ہوا، وزیر داخلہ نے ٹویٹ کیا، ہمارا شکریہ ادا کیا اور مجھے فون بھی کیا۔
جج نے حالات پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت خوبصورت ملک ہے، اگر یہ وہ جگہ ہے جہاں چیزیں ہیں تو ہم کہاں جا رہے ہیں؟
بعد ازاں عدالت نے ایمان مزاری اور علی وزیر کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 24 اگست کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔